جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

تاجر سے ادھار سامان لے کر مہنگا فروخت کر نے کے بعد اسے ادائیگی کرتا ہے۔

سوال

ایک شخص کے پاس سامان نہیں ہوتا، وہ کسی بڑے دکاندار سے عطر کی بڑی بوتلیں متعین قیمت  پر ادھار اٹھا لیتا ہے، اور پھر زیادہ قیمت کے عوض فروخت کر کے شام کو تاجر کو وہی قیمت ادا کرتا ہے جس پر اس نے خریداری کی تھی، اور نفع اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

مذکورہ لین دین کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

پہلی صورت:

عطر کی شیشیاں  تاجر سے ادھار لے کر  قیمت خرید سے مہنگی فروخت کی جائیں، اور پھر قیمت وصول کرنے کے بعد تاجر کو ادائیگی کر دی جائے۔

اس طرح لین دین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ فروخت کرنے سے پہلے خریدا ہوا سامان دکاندار سے اٹھا کر اپنے قبضے میں لے لے، لہذا یہ درست نہیں ہو گا کہ کسی سے بیع پکی کر لے اور سامان ابھی تک دکاندار کے اسٹور میں ہی پڑا ہوا ہو، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ابو داود (3499) نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: ( نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا ہے کہ سامان کو اسی جگہ فروخت کر دیا جائے جہاں اسے خریدا  گیا، یہاں تک کہ تاجر سامان کو اپنے گھروں میں لے جائیں) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (143532) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

اس صورت کا خلاصہ یہ ہے کہ:

جس سامان کو فروخت کرنا مقصود ہے اسے مکمل طور پر اپنی ملکیت میں شامل کر لے چاہے اس نے ابھی اس سامان کی قیمت ادا نہ کی ہو، لہذا قیمت ادھار ہونے کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا،  نیز [پرچون]فروخت کرنے والا اس کا ضامن ہو، مثلاً: اگر سامان تلف ہو جاتا ہے یا چوری ہو جائے یا کوئی اور ناگہانی صورت پیش آ جائے تو اس کی ذمہ داری اس پرچون فروش  پر ہو، اور تھوک  فروش کو اس کی پوری قیمت ملے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (46515) کے جواب میں بیع التصریف [فروخت کی غرض سے دکاندار کو سامان کی حوالگی  ] کے حکم کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

دوسری صورت:

یہ ہے کہ آدمی بڑے تاجر کا نمائندہ بن جائے، اور اس سے معاہدہ طے کر لے کہ  وہ اس کا سامان فروخت کرے گا ، اور اگر اس نے متعین قیمت سے زیادہ میں چیز بیچ ڈالی تو زیادہ قیمت اسی کی ہو گی، تو یہ صورت بھی جائز ہے، اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ آدمی سامان کا مالک بھی ہو، یا کسی کو فروخت کرنے سے پہلے اپنے قبضے میں لے؛ کیونکہ وہ اس صورت میں بڑے تاجر کا نمائندہ ہے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنی کتاب: "المغنی" (5/86) میں لکھتے ہیں:
"اگر [تاجر ]کہے: اس کپڑے کو دس میں بیچ دو، اس سے زیادہ میں فروخت کرو تو اضافی رقم تمہاری۔ تو یہ بیع بھی صحیح ہے، اضافی رقم کا فروخت کنندہ مستحق ہو گا، جبکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ: یہ بیع صحیح نہیں ہے۔
اس بیع کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس میں کوئی حرج  نہیں سمجھتے تھے، نیز اس لیے بھی درست ہے کہ اس صورت میں فروخت کنندہ مالک کے مال میں اس کی اجازت سے تصرف کر رہا ہے، اس لیے فروخت کنندہ کا اپنے لیے اضافی منافع کی شرط لگانا صحیح ہوا، بالکل اسی طرح جیسے مضاربہ میں مضارب کرتا ہے اور ٹھیکے پر فصل لینے والا  کرتا ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (121386) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اس صورت میں اگر تاجر کے ساتھ آدمی کا یہ معاہدہ نہیں ہوتا کہ مقررہ قیمت سے زیادہ آمدن آدمی کی ہو گی تو پھر اضافی آمدن بھی تاجر کا حق ہو گی، اور آدمی کو صرف اجرت ہی ملے گی، یا طے شدہ تناسب ملے گا۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (9386) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب