الحمد للہ.
اول:
مذکورہ طریقے کے مطابق گاڑی فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کی تین شرطیں ہیں:
پہلی شرط:
سرکاری ملازم کو گاڑی فروخت کرنے سے پہلے بینک اس گاڑی کو کمپنی سے خرید کر اپنے قبضے میں لے؛ کیونکہ جس چیز کا انسان مالک نہ ہو تو اس کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے، اس کی دلیل سنن نسائی: (4613) ، ابو داود: (3503) اور ترمذی: (1232) میں سیدنا حکیم بن حزام سے مروی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ: "میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال پوچھا کہ : اللہ کے رسول! میرے پاس کوئی گاہک آ کر مجھ سے ایسی چیز فروخت کرنے کا کہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے، میں پہلے اسے فروخت کر دیتا ہوں اور پھر بازار سے اس کے لیے خرید لیتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو چیز آپ کے پاس نہیں ہے وہ فروخت مت کر)" اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
ایک اور روایت میں کچھ یوں الفاظ ہیں:
"جب تم کوئی چیز خریدو تو اس وقت تک فروخت نہ کرو جب تک تم اسے اپنے قبضے میں نہیں لے لیتے" اس حدیث کو امام احمد: (15316) اور نسائی: (4613) نے روایت کیا ہے نیز صحیح الجامع: (342)میں البانیؒ نے سے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دوسری شرط:
قسطوں کی ادائیگی پر اصل قیمت سے ہٹ کر منافع وصول نہ کیا جائے، مثلاً: یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ: ہر سال بقیہ اقساط کا 5 فیصد اضافی دینا ہو گا؛ کیونکہ اس طرح کہنے سے یہ معاملہ سودی معاملے جیسا بن جائے گا۔
اسلامی فقہ اکادمی کے قسطوں کی بیع سے متعلق بیان میں ہے کہ:
"ادھار فروختگی کے معاہدے میں یہ بات جائز نہیں ہے کہ قسطوں پر اصل قیمت سے ہٹ کر منافع بھی لیا جائے ، اور اسے مدت ادائیگی سے منسلک کیا جائے ، چاہے اس میں منافع کی مقدار دو طرفہ متفقہ ہو یا دونوں عرف کے مطابق منافع کی مقدار مقرر کریں۔" ختم شد
"مجلة مجمع الفقه" (شمارہ: 6، جلد: 1، صفحہ: 193)
تیسری شرط:
معاہدے میں یہ بات نہ ہو کہ اگر قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہو تو جرمانہ ہو گا؛ کیونکہ اس طرح یہ سود بن جائے گا۔
فقہ اکادمی کی سابقہ قرار داد میں ہے کہ:
"اول: مؤخر ادائیگی کی صورت میں نقد ادائیگی سے زیادہ قیمت وصول کرنا جائز ہے، اسی طرح مال کی نقد قیمت اور متعین مدت تک کے لیے قسطوں کی صورت میں قیمت ذکر کرنا بھی جائز ہے۔ تاہم بیع تبھی درست ہو گی جب خریدار اور دکاندار نقد خریداری یا متعین مدت تک ادھار خریداری کا تعین کر لیں۔
چنانچہ اگر بیع کا نقد یا ادھار ہونا متعین نہ ہو، مثلاً: دونوں میں سے کوئی ایک قیمت متعین نہ کی جائے تو پھر یہ تجارتی معاہدہ شرعی طور پر جائز نہیں ہو گا۔۔۔
سوم: اگر ادھار خریداری کرنے والا شخص مقررہ وقت میں اقساط دینے سے قاصر ہو جائے تو پھر: خریدار سے پیشگی مشروط یا غیر مشروط انداز میں اضافی رقم وصول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حرام سود ہے۔" ختم شد
یہ تمام صورتیں تب ہیں جب بینک کاروں کے ڈیلر سے پہلے کار خریدے اور پھر یہ کار کمپنی کے ملازم کو فروخت کرے۔
لیکن اگر بینک صرف رقم فراہم کرتا ہے، وہ اس طرح کہ قیمت کار ڈیلر کو نقد ادا کر دے، اور پھر یہ قیمت کمپنی ملازم سے قسطوں میں اضافی رقم کے ساتھ وصول کرے تو یہ لین دین سودی ہے؛ کیونکہ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں بینک نے ملازم کو گاڑی کی قیمت قرض دی اور پھر ملازم پر لازم قرار دے دیا کہ وہ اس قیمت کو قسطوں کی شکل میں اضافے کے ساتھ واپس کرے۔ تو یہ تمام اہل علم کے مطابق سود ہے۔
واللہ اعلم