سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک شخص تنہائی میں حرام کاموں کا ارتکاب کر لیتا ہے، وہ اس کا علاج چاہتا ہے۔

سوال

میری آپ سے التجا ہے کہ مجھے اللہ کے عذاب اور غضب سے بچا لیں، میں مسلمان ہوں اور میری تربیت اسلامی طریقے سے ہوئی ہے، میں اب بھی دوسروں کے سامنے بہت پارسا بن کر رہتا ہوں، لیکن کیا کروں جب تنہائی میں ہوتا ہوں تو نظروں سے اوجھل ہو کر موبائل پر حیا باختہ اور غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز کھول لیتا ہوں، میں یہ جانتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھے دیکھ رہا ہے، لیکن پھر بھی میں یہ فحش کام کر بیٹھتا ہوں، پھر محض دیکھنے تک ہی بات نہیں رکتی بلکہ مشت زنی بھی کر بیٹھتا ہوں، حالانکہ میں شادی شدہ ہوں اور میرے بیٹے بھی ہیں، میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں کرتا ہوں یہ ڈنگروں کا کام ہے، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ کام نیکیاں مٹا دیتا ہے بلکہ انہیں سرے سے ختم کر دیتا ہے، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور اللہ تعالی سے توبہ بھی مانگتا ہوں، پھر ایک دو دن تو صحیح رہتا ہوں لیکن دوبارہ اسی لائن پر آ جاتا ہوں، میرے دل میں بڑی شدید نوعیت کی چاہت اور تمنا ہوتی ہے کہ میں حیا باختہ مناظر اور فلموں کا مشاہدہ کروں، اور برائی پر عمل پیرا ہو جاؤں، مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کروں؟ مجھے اتنا پتا ہے کہ اگر میں مر گیا تو اللہ مجھے آگ میں ڈالے گا، لیکن مجھے اپنے آپ پر کنٹرول حاصل نہیں ہے، از راہ کرم مجھے بچا لیں ، اللہ آپ پر رحم فرمائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

پیارے بھائی ! ہمیں اس بات کا پورا ادراک ہے کہ آپ کو گناہ کے بار بار ارتکاب پر  بہت زیادہ نفسیاتی تکلیف ہے، تاہم یہ ایک مثبت علامت ہے کہ اگرچہ آپ کا دل بیمار ہے لیکن پھر بھی آپ کے دل میں اب بھی سلامتی کا عنصر موجود ہے۔

اس بیماری سے نکلنے کے لیے اکسیر اور کامیاب علاج اس طرح ہو گا کہ ہر وہ راستہ بند کر دیا جائے جو آپ کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرتا ہے، اور اسی طرح اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس کرنے والا دروازہ بھی بند کر دیا جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔[الزمر: 53]

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (70) وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا

ترجمہ: وہ  اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ [68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ [69] سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ [70] اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو حقیقتاً اللہ تعالی کی طرف سچا رجوع کرتا ہے ۔ [الفرقان: 68 - 71]

ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب "الجواب الكافی" (ص165) میں کہتے ہیں:
"سراپا عدل و فضل پر مبنی حکم الہی ہے کہ : "گناہ سے تائب ہونے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں!!" بلکہ اللہ تعالی نے شرک، معصوم جان کے قتل اور زنا سے توبہ کرنے والے کے لیے ضمانت لکھ دی ہے کہ اس کے گناہ کو نیکی میں بدل دے گا ، اللہ کا یہ حکم کسی بھی گناہ سے تائب ہونے والے کے لیے عام ہے۔

اور ویسے بھی اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [الزمر: 53]
لہذا اس آیت کے عموم سے کوئی ایک گناہ بھی مستثنی نہیں ہے، تاہم یہ خصوصیت صرف انہی لوگوں کے لیے ہے جو توبہ کرتے ہیں۔" ختم شد

دوسری جانب اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو بھی قرآن مجید میں " المُتَّقِيْنَ " [یعنی متقی ] کہا ہے جو ایک بار کبیرہ گناہ ہونے یا بار بار صغیرہ گناہ ہونے پر غالب اور غفار پروردگار کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ لیتے ہیں، وہ گناہ پر قائم نہیں رہتے اور نہ ہی نافرمانی پر اصرار کرتے ہیں۔

چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (135) أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ

ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ [133] جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے۔ [134] ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے [135] ایسے لوگوں کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں یہ ہے کہ وہ انہیں معاف کر دے گا اور ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ (اچھے) عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا بدلہ ہے ۔ [آل عمران: 133 - 136]

نافرمانی پر اصرار کرنے والا وہ شخص ہے جو گناہ کرے، اور پھر بغیر توبہ اور استغفار کے دوبارہ پھر گناہ میں ملوث ہو جائے۔

لیکن جو شخص گناہ کر لے لیکن اس کے بعد سچی اور پکی توبہ کر لے، اور پھر کچھ عرصے بعد گناہ کے آگے دوبارہ ڈھیر ہو جائے اور پھر گناہ کر بیٹھے ، دوسری بار گناہ کے بعد دوبارہ سے پھر پکی اور سچی توبہ کر لے، اس کا یہی وتیرہ ہو کہ گناہ کر کے توبہ کر لے اور توبہ کے بعد پھر گناہ کر لے رحمن اور رحیم ذات کے سامنے توبہ کرتا رہے تو ایسا شخص نافرمانی پر اصرار کرنے والا نہیں ہے اور ان شاء اللہ اسے معافی دے دی جائے گی اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی لغزشوں سے در گزر فرمائے گا، اور اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔

جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا:
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ایک بندے نے گناہ کیا اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا گناہ گار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔
اللہ نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے! میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ۔
پھر بندہ گناہ سے اتنی دیر رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا اور پھر اس نے گناہ کر لیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں نے دوبارہ گناہ کر لیا، اسے بھی بخش دے۔
اللہ تعالی نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے بدلے میں سزا بھی دیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔
پھر جب تک اللہ نے چاہا بندہ گناہ سے رکا رہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور اللہ کے حضور عرض کیا: اے میرے رب! میں نے ایک اور گناہ کر لیا ہے تو مجھے بخش دے۔
اللہ تعالی نے فرمایا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور  اس کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ [اللہ تعالی یہ بات ]تین مرتبہ [فرماتا ہے]، پس اب جو چاہے عمل کرے۔

اس حدیث کو بخاری: (7507) ،ا ور مسلم: (2758) نے روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے "شرح صحیح مسلم" (17/75) میں لکھتے ہیں:
"اگر گناہ کا ارتکاب سو بار کرے یا ہزار بار کرے یا اس سے بھی زیادہ بار کرے اور ہر بار توبہ بھی کرے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، اور اس کا گناہ کالعدم ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی انسان اپنے سابقہ سارے گناہوں سے یک بارگی توبہ کرے تو تب بھی اس کی توبہ صحیح ہو گی۔
اللہ تعالی نے بار بار گناہ کر کے توبہ کرنے والے کے لیے فرمایا: " اب جو چاہے عمل کرے ، میں نے اسے بخش دیا ہے" کا مطلب یہی ہے کہ جب تک تم گناہ کر کے توبہ کرتے رہو گے میں تمہیں بخشتا رہوں گا۔" ختم شد

اس لیے آپ سے جب بھی گناہ سر زد ہو فوری توبہ کر لیں، اور ہر بار سچی توبہ کریں، آپ سے جو کچھ بھی گناہ سر زد ہوا ہے اس پر ندامت کا اظہار کریں، اور آئندہ وہ گناہ کبھی بھی نہ کرنے کا عزم کریں۔

اپنی توبہ کی تکمیل کے لیے درج ذیل امور پر محنت کریں:

جس وجہ سے آپ اس گناہ میں ملوث ہو جاتے ہیں ان تمام وجوہات کے راستے بند کر دیں، اس کے لیے آپ تنہائی میں مت رہیں، ہمیشہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں، اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہیں۔

اگر آپ اپنی اہلیہ سے دور ہیں تو کوشش کریں کہ انہیں اپنے ساتھ رکھیں، آپ اپنی بیوی سے دور زیادہ دیر کے لیے مت جائیں، اپنی بیوی کے ذریعے اپنے آپ کو پاکدامنی مہیا کریں اور اپنے ذریعے اپنی اہلیہ کو پاکدامنی مہیا کریں۔

اگر آپ اپنی اہلیہ کے پاس ہی ہوتے ہیں تو پھر ان سے دور مت جائیں، بیوی کے ساتھ رومانوی وقت گزاریں، اپنی ضرورت اپنی بیوی سے پوری کریں، جب بھی آپ کے دل میں ایسا کوئی خیال آئے یا آپ کی نظر کسی ایسی چیز پر پڑے جس سے جذبات انگڑائی لیں تو شیطان کو موقع ہی نہ دیں کہ حرام طریقے سے ضرورت پوری کرنے کا خیال لائے آپ حلال طریقے سے اپنی ضرورت پوری کر لیں۔

ہر وقت کوشش کریں کہ اپنے آپ کو دنیاوی یا اخروی کسی بھی مفید سرگرمی میں مصروف رکھیں؛ کیونکہ فراغت انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔

موبائل سے انٹرنیٹ کی سہولت یکسر ختم کر لیں، ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ اپنا موبائل بدل لیں، اور ایسا موبائل لے لیں جس میں نیٹ کی سہولت ہی میسر نہ ہو۔

اپنے دل میں ایمان کو مضبوط بنائیں، اللہ کا خوف دل میں بسائیں، حساب الہی کی سختی ذہن نشین کریں، اور یہ بات بھی دل و دماغ میں اچھی طرح اجاگر کر لیں کہ اللہ تعالی آپ کو ہر وقت دیکھ رہا ہے بلکہ آپ کی نگرانی اور نگہبانی بھی کر رہا ہے۔

زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کریں، نفل نمازوں کا اہتمام کریں اور خصوصاً قیام اللیل کی کوشش کریں۔

اللہ تعالی سے ہدایت کی زیادہ سے زیادہ دعا کریں، طلب ہدایت کے لیے سب سے مفید ترین دعا یہ ہے:

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 

ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔[الفاتحہ: 6]

ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کے لیے دعا گو ہیں کہ ہم سب کو ہدایت اور پھر اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے۔

اللہ تعالی ہی اپنے پسندیدہ اور رضائے الہی کے موجب بننے والے اعمال کی توفیق دینے والا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب