الحمد للہ.
اول:
قسم کا کفارہ ادا کرنے کے لیے کسی کو اپنا نمائندہ بنانا
کفارے کی ادائیگی کے لیے کسی خیراتی ادارے یا کسی اور کو اپنا نمائندہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (5/53)میں کہتے ہیں:
"ایسی عبادات جن کا تعلق مال سے ہے، جیسے کہ زکاۃ، صدقات، نذر اور کفارے وغیرہ تو ان عبادات میں کسی کو اپنا نمائندہ بنانا جائز ہے کہ کوئی غریب شخص کی طرف سے وصولی کرے یا صاحب حیثیت شخص کی طرف سے مستحق لوگوں میں تقسیم کرے، لہذا مالی عبادت کرنے والے کے لیے اس مال کو مستحق لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری کسی اور کو سونپنا جائز ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ وہ کسی سے کہہ دے: میری زکاۃ اپنے ذاتی مال سے ادا کر دو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے گورنروں کو صدقات کی وصولی اور تقسیم کے لیے روانہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا تھا: انہیں بتلا دیں کہ ان پر زکاۃ دینا لازم ہے جو کہ غنی لوگوں سے لے کر غریب لوگوں میں تقسیم کی جائے گی؛ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو پھر ان کے نفیس اور قیمتی مال سے بچنا، مظلوم کی بد دعا سے دور رہنا؛ کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ متفق علیہ " ختم شد
دوم:
غریب شخص کو ہوٹل سے کھانا وصول کرنے کے لیے کوپن دینے کا حکم
غریب شخص کو ہوٹل سے کھانا وصول کرنے کے لیے پیڈ کوپن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ کوپن نقدی نوٹ نہیں ہیں، بلکہ یہ تو کھانے کی رسید ہے، تو اگر خیراتی ادارے نے کھانے کے کوپن خریدے ہیں تو اس کا مطلب کھانا ہی ہے کہ مستحق شخص آ کر متعلقہ ہوٹل سے کھانا لے لے۔
پہلے سوال نمبر: (233733) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ کفارے کی مد میں ہوٹل سے تیار کھانا لے کر تقسیم کرنا جائز ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا:
"ایک شخص پچاس ریال ہوٹل والے کو دے دیتا ہے کہ وہ 10مساکین کو کھانا کھلا دے؛ کیونکہ ہوٹل والے نے بتلایا تھا کہ ایک شخص کا کھانا 5 ریال میں ہوتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ 10 کے 10 مسکین اور غریب بیک وقت نہیں آ سکتے تو اس کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"قسم کا کفارہ دینے والے جس شخص نے ہوٹل کے مالک کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری سونپی اور اس نے واقعی دس مساکین کو کھانا کھلا بھی دیا تو اس نے اپنے ذمے کا کام کر دیا ہے، الحمد للہ۔
لیکن یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ دس مساکین کو کھانا کھلانا ضروری ہے ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک مسکین کو 10 بار کھانا کھلا دیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے دس مساکین کو کھانا کھلانے کی تلقین کی ہے، جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے:
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
ترجمہ: اللہ تمہاری مہمل قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ( اگر تم ایسی قسم توڑ دو تو) اس کا کفارہ دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کی پوشاک ہے یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے میسر نہ ہوں وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو۔ اور (بہتر یہی ہے کہ) اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔[المائدہ: 89]
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمت اور سلامتی نازل فرمائے۔
بکر ابو زید، عبد العزیز آل الشیخ، صالح الفوزان، عبد اللہ بن غدیان، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز۔" ختم شد
"دائمی فتوی کمیٹی" (23/121)
واللہ اعلم