الحمد للہ.
اگر تو آپ دونوں نے ايسا كام رمضان المبارك كے علاوہ كسى اور مہينہ ميں كيا تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ نفلى روزہ مكمل كرنا لازم نہيں، اگرچہ مسلمان شخص روزہ ركھ بھى چكا ہو، صحيح يہى ہے كہ وہ روزہ توڑ سكتا ہے.
ليكن اگر يہ كام رمضان المبارك ميں ہوا ہو تو يہ بہت عظيم گناہ ہے كيونكہ انسان فرضى روزہ بغير كسى شرعى اور معتبر شرعى عذر كے روزہ نہ ركھنے كى كيسے جرات كر سكتا ہے، بلكہ اس طريقہ سے اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء كے ارتكاب كى جرات كرے ؟
اس بنا پر جو كچھ بھى رمضان ميں ہوا اس كى تفصيل درج ذيل ہے:
اول:
اگر تو آپ اذان فجر سے قبل گھر پہنچ گئے، تو اس دن كا روزہ ركھنا آپ كے ليے لازم ہے، كيونكہ اپنے ملك اور گھر پہنچنے سے آپ كا سفر ختم ہو چكا ہے، اس ليے اگر آپ بيوى سے جماع كرنے كے ليے عمدا اور جان بوجھ كر روزہ نہيں ركھتے، اور نہ ہى آپ كى بيوى روزہ ركھتى ہے تو آپ دونوں گنہگار ہيں اس ليے جماع كى حالت ميں آپ دونوں پر قضاء اور كفارہ مغلظہ ادا كرنا لازم ہو گا.
دوم:
اگر آپ دن كے وقت سفر سے واپس آئيں تو اس ميں صحيح يہى كہ اگر مسافر بغير روزہ كے واپس گھر پہنچ جائے تو اس كے ليے باقى مانندہ دن بغير كھائے كيے بسر كرنا لازم نہيں، كيونكہ روزہ كى قضاء اور كھانے پينے سے ركنا دونوں جمع نہيں ہوتيں، يہ قول امام احمد رحمہ اللہ كى ايك روايت اور امام شافعيى كا مسلك ہے.
ديكھيں: شرح الشيقح على زاد المسقنع ( 4 / 282 - 285 ).
ليكن بيوى كو روزہ نہ ركھنے كا حكم دينے سے آپ گنہگار ہونگے، اور آپ كى اطاعت ميں روزہ نہ ركھ كر بيوى بھى گنہگار ہوگى، چاہے وہ آپ كى مجامعت كى بنا پر بھى روزہ نہ ركھے.
اس صورت ميں جماع كرنے پر اكيلى بيوى كے ذمہ قضاء اور كفارہ مغلظہ ہوگا، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 38023 ) اور ( 22938 ) اور ( 1672 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى اس ليے آپ ان سوالوں كے جوابات كا مطالعہ كريں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
رمضان المبارك ميں دن كے وقت ايك شخص نے بيوى سے جماع كرنا چاہا تو كوئى چيز كھا كر روزہ توڑ ليا اور بيوى سے جماع كيا تو كيا اس شخص پر كفارہ ہو گا يا نہيں ؟
اور بغير كسى عذر روزہ توڑنے والے پر كيا لازم آتا ہے ؟
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" سب تعريفات اللہ وحدہ كے ليے ہيں وبعد:
اس مسئلہ ميں دو مشہور قول ہيں:
پہلا قول: جمہور علماء مثلا امام مالك، امام احمد، امام ابو حنيفہ وغيرہ كے ہاں كفارہ واجب ہے.
دوسرا قول:
امام شافعى رحمہ اللہ كے ہاں كفارہ واجب نہيں.
علماء كرام كے ہاں اس ميں اختلاف ہے كہ كيا صحيح روزہ توڑنا شرط ہے ( يعنى كفارہ مغلظہ واجب ہونے كے ليے كيا صحيح روزہ توڑنا شرط ہے ) ؟
امام شافعى رحمہ اللہ وغيرہ اس كى شرط لگاتے ہيں، چنانچہ اگر وہ كھاپى لے اور پھر جماع كرے، يا پھر اس نے رات روزہ ركھنے كى نيت نہ كى اور دن ميں بيوى سے جماع كر ليا، يا پھر جماع كر كے كفارہ ادا كر ليا اور پھر جماع كرے تو اس كے ذمہ كفارہ نہيں ( يعنى امام شافعى كے ہاں ) كيونكہ اس نے صحيح روزے كى حالت ميں جماع نہيں كيا، اور امام احمد اپنے ظاہر مذہب اور دوسرے كہتے ہيں:
" بلكہ ان اور اس طرح كى دوسرى صورتوں ميں اس پر كفارہ ہے، كيونكہ رمضان المبارك ميں اس كے ليے دن ميں كھانے پينے سے ركنا لازم ہے، چنانچہ وہ فاسد روزے ميں ہے، تو اس طرح وہ فاسد احرام كے مشابہ ہوا، جس طرح حاجى حج ميں اپنا احرام فاسد كر دے تو پھر احرام كى حالت ميں ممنوعہ اشياء سے اجتناب كرنا لازم ہے، اگر كسى بھى ممنوعہ چيز پر عمل كرے تو اس كے ذمہ وہى لازم آتا ہے جو صحيح احرام كى حالت ميں واجب تھا.
اور اسى طرح جس پر رمضان المبارك كے روزے فرض ہوں تو اس كے ذمہ كھانے پينے سے ركنا واجب ہے، كھانے پينے اور جماع يا نيت نہ كرنے كى بنا پر اس كا روزہ فاسد ہوگا، اور اس كے ليے روزہ كى حالت ميں ممنوعہ اشياء سے اجتناب لازم ہے.
اس ليے اگر اس نے ان اشياء ميں سے كوئى چيز تناول كى تو اس كے ذمہ وہى كچھ لازم آئيگا جو صحيح روزہ كى حالت ميں تناول كرنے سے لازم آتا ہے، اور ان دونوں صورتوں ميں قضاء واجب ہے.
اس ليے كہ اس نے دونوں حالتوں ميں ہى رمضان المبارك كى حرمت پامال كى ہے، بلكہ يہاں تو حرمت كى پامالى اور بھى زيادہ شديد ہے، كيونكہ اول تو وہ روزہ نہ ركھنے كى بنا پر گنہگار ہے، اور دوم جماع كر كے حرمت پامال كى دو ڈبل گناہ ہوا، چنانچہ اس كے ذمہ يقينى كفار ہے.
اور اس ليے بھى كہ اگر اس طرح كى حالت ميں اس پر كفارہ واجب نہيں ہوتا تو ہر ايك كے ليے يہ كفارہ ادا نہ كرنے كا ذيعہ بنےگا، كيونكہ رمضان ميں كوئى بھى جماع نہيں كرسكتا، جب تك كہ وہ كھاپى نہ لے، اور پھر وہ جماع كرےگا، بلكہ اس طرح تو يہ اس كے مقصد ميں ممد و معاون بنتا ہے، تو كھانے سے قبل اس پر كفارہ ہوگا.
اور جب وہ اور اس كى بيوى كھانا كھا لے اور پھر جماع كرے تو اس پر كفارہ نہيں، يہ تو بہت ہى شنيع عمل ہے، شريعت ميں اس طرح كا كوئى عمل وارد نہيں.
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 471 ) مجموع الفتاوى ( 25 / 260 ) اور المجموع للنووى ( 6 / 321 ).
واللہ اعلم .