ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

گھر ميں نماز تراويح ادا كرنے كا حكم

سوال

كيا گھر ميں نماز تراويح ادا كرنا جائز ہيں ؟
اور كيا خاوند امام بن كر بيوى كے ساتھ نماز تراويح ادا كر سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز تراويح سنت مؤكدہ ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز تراويح پر ابھارتے ہوئے فرمايا:

" جس نے ايمان كے ساتھ اجروثواب كى نيت سے رمضان المبارك كا قيام كيا اس كے پچھلے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 37 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 759 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو كئى روز نماز تراويح خود بھى پڑھائيں، پھر ان پر فرض ہو جانے كے ڈر سے انہيں نماز تراويح پڑھانے نہ نكلے، اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنے دور خلافت ميں سب لوگوں كو ايك امام پر جمع كر ديا، اور يہ نماز تراويح آج تك ادا كى جاتى ہيں.

اسماعيل بن زياد بيان كرتے ہيں كہ: على رضى اللہ تعالى عنہ مساجد كے پاس كے گزرے اور مساجد ميں ماہ رمضان ميں قنديل روشن تھيں، تو فرمانے لگے: اللہ تعالى عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى قبر كو منور كرے، جس طرح انہوں نے ہمارى مساجد كور وشن كيا ہے "

اسے اثرم نے روايت كيا، اور ابن قدامہ نے المغنى ( 1 / 457 ) ميں نقل كيا ہے.

اور " دقائق اولى النھى " ميں درج ہے:

" گھر ميں نماز تراويح ادا كرنے سے مسجد ميں نماز تراويح ادا كرنا افضل ہے، اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب لوگوں كو مسلسل تين رات تراويح پڑھائيں، جيسا كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں... "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام قيام سے فارغ ہوا تو اس كى سارى رات كا قيام لكھا جاتا ہے " اھـ

ديكھيں: دقائق اولى النھى للبھوتى ( 1 / 2245 ).

اور امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے: اس كے مستحب ہونے پر علماء كرام كا اتفاق ہے، وہ كہتے ہيں: اور اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا گھر ميں انفرادى طور پر ادا كرنى افضل ہے يا كہ مسجد ميں باجماعت نماز تراويح ادا كرنى ؟

تو امام شافعى اور اس كے جمہور اصحاب، اور ابو حنيفہ اور احمد اور بعض مالكيہ وغيرہ كہتے ہيں كہ: نماز تراويح باجماعت ادا كرنا افضل ہيں، جيسا كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ اور صحابہ كرام نے كيا، اور مسلمانوں كا اس پر عمل رہا ہے، كيونكہ يہ ظاہرى شعار ميں شامل ہوتا ہے " اھـ

ديكھيں: نيل الاوطار للشوكانى ( 3 / 62 ).

چنانچہ مسجد ميں باجماعت تراويح ادا كرنا افضل ہيں، ليكن اگر كوئى شخص گھر ميں اكيلا، يا گھر والوں كے ساتھ باجماعت گھر ميں نماز تراويح ادا كرتا ہے تو يہ جائز ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" علماء كرام كے اجماع كے مطابق نماز تراويح سنت ہيں... اور انفرادى اور باجماعت دونوں طرح جائز ہے.

اور كونسا طريقہ افضل ہے ؟ اس ميں دو مشہور قول ہيں: صحيح يہى ہے كہ اصحاب كے اتفاق كے مطابق نماز تراويح باجماعت ادا كرنا افضل ہيں " اھـ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 526 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب