سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

کولہوں کو پتلا کروانے کے لیے کاسمیٹک سرجری

سوال

اعضا کو پتلا کروانے کے لیے سرجری کروانا، مثلاً: کولہے اور پستان کی موٹائی کم کروانا کیا یہ حرام ہے یا حلال، واضح رہے کہ جہاں اس سرجری کی ضرورت ہو تو وہاں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پلاسٹک یا کاسمیٹک سرجری کی بعض اقسام مباح ہیں اور بعض حرام ہیں، ان میں تفریق جراحی عمل کی نیت سے ہوتی ہے، چنانچہ اگر سرجری کا مقصد مزید خوبصورتی اور حسن ہے تو اہل علم اس قسم کی سرجری کو اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی شمار کرتے ہیں، اسی طرح لوگوں کی من مانی اور چاہت کے مطابق جسمانی اعضا کو ڈھالنا بھی منع ہے، جیسے کہ الشیخ محمد المختار شنقیطی نے اپنی کتاب: "احکام الجراحہ" میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔

اس حکم کے درج ذیل دلائل ہیں:

  1. ابلیس ملعون کے بارے میں بتلاتے ہوئے فرمان باری تعالی ہے کہ:  وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّهِ  ترجمہ: [شیطان نے کہا:] اور میں انہیں ضرور حکم کروں گا تو وہ اللہ تعالی کی تخلیق میں لازماً تبدیلی کریں گے۔[النساء: 119]
  2. سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ لعنت فرما رہے تھے خوبصورتی کے لیے چہرے سے بال نوچنے والی اور دانتوں میں فاصلہ ڈالنے والی عورت پر کیونکہ یہ عورتیں تخلیق الہی میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ بخاری: (4507)
  3. اس سرجری کے دوران دیگر حرام اور ممنوع کاموں کا ارتکاب بھی کرنا پڑتا ہے، ان میں سب سے پہلے نشہ آور چیز دے کر بے ہوش کرنا، جو کہ بنیادی طور پر حرام ہے، بے ہوش کرنے کی اجازت صرف وہاں ہے جہاں ضرورت ہو اور علاج کرنا مقصود ہو۔

اسی طرح شرمگاہ اور پردے والی جگہ کو کھولنا اور اسے ہاتھ لگانا بھی حرام ہے، اور یہاں کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ان حرام کاموں کی اجازت دی جائے۔

لیکن اگر سرجری کروانے کا مقصد عیب کا خاتمہ ہے کہ کولہے یا پستا ن عمومی حجم سے بہت زیادہ بڑے ہیں اور سرجری کے ذریعے انہیں اپنی معتاد صورت میں واپس لانا ہے تو پھر سرجری یا آپریشن کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (47694 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے گودنے والی اور گدوانے والی عورت پر لعنت فرمائی)کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان کہ: (حسن میں اضافے کے لیے دانتوں میں فاصلہ ڈلوانے والیاں) کا مطلب یہ ہے کہ جو حسن میں اضافے کے لیے فاصلہ ڈلوانے والی خواتین۔ تو اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حسن میں اضافہ کرنے کے لیے فاصلہ پیدا کروانا حرام ہے، لیکن اگر علاج یا دانتوں میں عیب کے خاتمے کے لیے ضرورت محسوس ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔"

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عیوب کا خاتمہ جائز ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ میں جس شخص کی ناک کٹ گئی تھی اسے سونے کا ناک لگوانے کی اجازت دی تھی، اس لیے اس مسئلے میں کافی وسعت ہے؛ لہذا کاسمیٹک سرجری اور پلاسٹک سرجری بھی اس میں شامل ہو جائے گی۔ چنانچہ جو بھی سرجری کسی عیب کو ختم کرنے کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: کسی کا ناک ٹیڑھا ہو تو اس کو ٹھیک کروایا جائے، یا سیاہ دھبوں کو ختم کروایا جائے یا اسی طرح کا کوئی عیب ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جو کام عیب زائل کرنے کے لیے نہ ہو مثلاً: اپنی جلد کو گدوانا یا ابرو سے بال نوچنا تو یہ منع ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (11/93)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب