الحمد للہ.
اگر پرائیویٹ ہسپتال کی انتظامیہ نے لیڈی ڈاکٹر کو کچھ مریضوں کا مفت چیک اپ کرنے کی اجازت دی ہوئی تو پھر خاتون ڈاکٹر کی جانب سے کیا جانے والا مفت چیک صحیح ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر انہیں ہسپتال کے آلات مفت استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے تو پھر جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کسی بھی مسلمان کا مال اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں ہے۔) اس حدیث کو امام ابو یعلی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع: (7662) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور اگر اسپتال انتظامیہ نے خاتون ڈاکٹر کو اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے لیے رعایت دینے کی اجازت دی ہوئی ہے تو پھر آپ مقررہ رعایت والی رقم نکال کر بقیہ اسپتال میں جمع کروائیں۔
اور آپ لیڈی ڈاکٹر کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ آپ سے فیس وصول کرے اور اسے اسپتال انتظامیہ کو جمع کروائے، اور انہیں یہ واضح کر دیں کہ اگر اسپتال نے انہیں مفت علاج کی اجازت نہیں دی ہوئی تو پھر ایسے کرنا حرام ہے۔
اور اگر لیڈی ڈاکٹر آپ کی بات نہیں مانتی تو پھر آپ یہ رقم کسی بھی طریقے سے اسپتال تک پہنچا دیں۔
علامہ نووی رحمہ اللہ "شرح المهذب" ( 9 /428) میں کہتے ہیں :
"اگر کسی کے پاس حرام مال ہے اور وہ توبہ کر کے اس سے لا تعلق ہونا چاہتا ہے تو اگر اس کا کوئی معین شخص مالک بھی ہے تو یہ مال اس مالک کو یا اس کے نمائندے کو پہنچانا لازمی ہے، اور اگر مالک فوت ہو چکا ہے تو پھر وارثوں تک اس مال کو پہنچانا ضروری ہے۔" ختم شد
آپ پر یہ لازم نہیں ہے کہ مالک کو اس مال کی تفصیلات بتلائیں یہاں ہدف یہ ہے کہ رقم اس تک کسی نہ کسی طریقے سے پہنچ جائے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (31234 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم