الحمد للہ.
اول:
ہم والدین کے ساتھ حسن سلوک، اور انہیں ثواب پہنچانے کی آپکی کوشش کو سراہتے ہیں، اور اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اجر سے نوازے، اور مزید کیلئے توفیق دے، اور آپکو آپکے والدین سمیت تمام مسلمانوں کیساتھ جنت میں اکٹھا فرمائے۔
اہل علم کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر صدقہ کرنے والا شخص صدقے کا ثواب فوت شدگان کو ہدیہ کر دے تو اس کا ثواب انہیں پہنچتا ہے، بلکہ والدین کے بارے میں خصوصی طور پر اتفاق پایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح اس بات میں بھی اختلاف نہیں ہے کہ قید حیات، یا وفات پا جانے والوں کیلئے دعا اگر اللہ تعالی قبول فرما لے تو سب کو اس سے فائدہ اور رحمتِ الہی موصول ہوتی ہے، چنانچہ اس بارے میں متعدد صحیح احادیث ثابت ہیں، اور ان احادیث کا تفصیلی بیان متعدد سوالات کے جواب میں ہماری اسی ویب سائٹ پر موجود ہے، ان کیلئے آپ ان سوالات کے جوابات بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں: (12652) ، (42384) اور (102322)
دوم:
صدقہ کرنے والا اپنے صدقے کے اجر کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے والدین اور اپنے
درمیان بانٹ سکتا ہے، چاہے والدین زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں:
" کیونکہ صدقہ کرنے کا ثواب صدقہ کرنے والے کی ملکیت ہوتا ہے، چنانچہ صدقہ کرنے
والا مکمل یا جزوی ثواب کسی دوسرے کو ہدیہ کر سکتا ہے، تاہم ہدیہ کرتے ہوئے اس کی
وضاحت کریگا، مثلاً: اگر وہ چار لوگوں کو ثواب ہدیہ کرے تو ان میں سے ہر ایک کو
ایک چوتھائی حصہ ملے گا، اور اگر ایک چوتھائی حصہ دوسروں کو ہدیہ کرے اور باقی
تین چوتھائی حصہ اپنے لیے رکھے تو یہ بھی درست ہوگا، اسی طرح تین چوتھائی دوسروں
کو ہدیہ کرے، اور ایک حصہ اپنے لیے رکھے تب بھی درست ہوگا"
منقول از: "الروح" تالیف: ابن قیم : (صفحہ: 190) ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی اس
گفتگو کو مباحثہ کے طور پر ذکر کیا ہے۔
اس سے پہلے ہم سوال نمبر: (20996) کے جواب میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ : شیخ ابن باز رحمہ اللہ قید حیات ، یا وفات پا جانے والے لوگوں کی طرف سے صدقہ کرنے کے قائل تھے۔
بہر حال ہم آپکی اس سے بھی افضل عمل کی طرف رہنمائی کرنا چاہیں گے کہ: آپ نیک اعمال
اپنے لیے کریں، اور اس کا مکمل ثواب بھی اپنے لیے ہی رکھیں، جبکہ اپنے والدین کیلئے
کثرت سے دعا کریں، تو یہ افضل بھی ہے، اور کامل بھی ۔
اس بارے میں مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (42088) کا جواب
ملاحظہ کریں۔
سوم:
بقیہ تمام نفل عبادات مثلاً: روزہ، حج، عمرہ، تلاوت قرآن، اذکار، اور دیگر نیکی اور رفاہی کاموں کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، کہ اس کا ثواب میت کو ملتا ہے یا نہیں۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب : "الروح" (ص/170) میں کہتے ہیں:
"امام احمد اور جمہور سلف اہل علم ان کا ثواب میت کو پہنچنے کے قائل ہیں، اور یہی
موقف کچھ حنفی فقہائے کرام کا ہے۔
امام احمد نے اس موقف کے بارے میں واضح الفاظ استعمال کیے ہیں، چنانچہ -محمد بن
یحیٰ الکحال کی روایت کے مطابق- ابو عبد اللہ [امام احمد کی کنیت] سے پوچھا گیا: "ایک
شخص نماز ، صدقہ، یا کوئی اور نیکی کا کام کر کے اس کا آدھا ثواب اپنے والد یا
والدہ کیلئے ہدیہ کر دیتا ہے، [یہ کیسا عمل ہے]؟ تو انہوں نے کہا: "امید کرتا
ہوں[کہ ٹھیک ہے]"راوی کہتے ہیں کہ یا پھر انہوں نے کہا تھا: "صدقہ وغیرہ ہر چیز میت
کو پہنچ جاتی ہے"
مزید انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: "تین بار آیۃ الکرسی پڑھو، اور سورہ اخلاص پڑھو،
اور پھر کہو: "یا اللہ! اس کا ثواب فوت شدگان کیلئے ہے"
جبکہ شافعی اور مالک رحمہما اللہ کا مشہور موقف یہی ہے کہ یہ ثواب نہیں پہنچتا"
انتہی
ہماری ویب سائٹ پر پہلے بھی دوسرے قول کو راجح قرار دیا گیا ہے کہ
، میت کو صرف انہی نیک اعمال کا ثواب پہنچتا ہے، جن کے ثواب کے متعلق نصوص موجود
ہیں، مثلاً: دعا، حج، اور عمرہ ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى
)
ترجمہ: اور انسان کیلئے صرف وہی ہے، جس کی اس نے خود کوشش کی[النجم:39]
مزید کیلئے سوال نمبر: (46698) کا مطالعہ کریں۔
چہارم:
یہ مسئلہ کہ انکی طرف سے چوری کردہ، غصب کردہ، یا دھوکہ دہی سے حاصل کردہ حرام مال کی ادائیگی کے بارے میں یہ ہے کہ اس کے بارے میں دو طرح کے حقوق ہیں:
1- اللہ تعالی کا حق، کہ انہوں نے حرام کام کا ارتکاب کیا۔
2- صاحب مال کا حق، کہ اس کا مال بغیر حق کے ہڑپ کیا۔
اصلی مالک کو اس کا مال پہنچانے کی صورت میں اس کا حق تو پورا ہو جائے گا، لیکن اللہ کا حق باقی رہےگا، اور وہ توبہ کیے بغیر ساقط ہونے والا نہیں ہے، یا پھر اللہ تعالی خود ہی احسان و کرم کرتے ہوئے معاف کر دے تو الگ بات ہے۔
پنجم:
آپکی ذکر کردہ دعا میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کیلئے کوئی مخصوص تعداد مت مقرر کریں، اور حسب استطاعت جتنی ہو سکے آپ دعا کریں، لیکن اس کیلئے کوئی خاص تعداد یا فضیلت ذہن میں مت رکھیں۔
واللہ اعلم.