الحمد للہ.
خاوند كے فوت ہونے كے بعد بيوى اسے ديكھ سكتى ہے، اور خاوند يا بيوى كے فوت ہونے كى صورت ميں ہر ايك دوسرے كو غسل دينے كے حكم ميں علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق بيوى خاوند كو غسل دے سكتى ہے، چاہے غسل دينے والا موجود ہو يا نہ ملے.
كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قول ہے:
( اگر ہميں پہلے علم ہو جاتا جو بعد ميں علم ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كى بيوياں ہى غسل ديتيں )
اسے ابو داود رحمہ اللہ تعالى نےروايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى بيوى اسماء بنت عميس رضى اللہ تعالى عنہا كو وصيت كى تھى كہ وہ خود انہيں غسل ديں تو انہوں نے ہى ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو غسل ديا تھا.
اور اس ليے بھى كہ ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كو ان كى بيوى ام عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہا نے غسل ديا تھا، اور يہ بھى جائز ہے كہ اگر بيوى فوت ہو جائے تو اہل علم كے ہاں صحيح يہى ہے كہ خاوند اپنى بيوى كو غسل دے سكتا ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل روايت ہے:
ابن منذر رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے كہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنى بيوى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كو وفات كے بعد غسل ديا تھا، اور صحابہ كرام كے ہاں يہ مشہور بھى ہوا ليكن كسى صحابى نے اس كا انكار نہيں كيا، تو اس طرح صحابہ كرام كا اس پر اجماع ہے .