منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اپنى بھانجى كا دودھ پيا تا كہ اس كى اولاد كے ليے محرم بن جائے

سوال

ميرى بھانجى نے ميرى بہن كے ساتھ دودھ پيا ہے، اور اسى عمر ميں اس نے ميرے بيٹے كو بھى دودھ پلايا ليكن اس كا ميرے خاوند كو علم نہيں تھا، اس ليے كہ ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى حرمت نہيں، ميں نے اپنى بھانجى كو چار بار دودھ پلايا ہے، اور ميرى بہن نے ميرے بيٹے كو پانچ بار دودھ پلايا ہے كيونكہ ہم انہيں رضاعى بہن بھائى بنانا چاہتے تھے تا كہ وہ ايك دوسرے كے ساتھ ميل جول ركھ سكيں.
ليكن جب ميرے خاوند كو پتہ چلا تو اس نے بتايا كہ يہ تو حرام ہے؛ ہميں غيب كا علم تو نہ تھا كہ يہ حرام ہے؛ اب بتائيں كہ اس كا حكم كيا ہوگا اور اس كے نتائج كيا نكليں گے ؟
اللہ تعالى آپ كو ہر قسم كى خير و بركت سے نوازے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ايك پر حرام ہونے كى خاطر آپ كے ليے اپنى بھانجى اور آپ كى بہن كا آپ كے بيٹے كو دودھ پلانے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ يہ مباح مقصد ہے، اور بعض اوقات تو ايسا كرنے كى ضرورت بھى ہوتى ہے، يہ حرام نہيں ہے جيسا كہ آپ كے خاوند كا كہنا ہے، اس كى يہ بات غلط ہے.

رضاعت سے حرمت اس وقت ثابت ہوتى ہے جب اس ميں دو شرطيں پائى جائيں:

پہلى شرط:

پانچ رضعات يعنى پانچ بار يا اس سے زائد دودھ پلايا گيا ہو؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

" قرآن مجيد ميں جو نازل كيا گيا تھا اس ميں دس معلوم رضعات بھى شامل تھيں جس سے حرمت ثابت ہوتى تھى، پھر انہيں پانچ رضعات سے منسوخ كر ديا گيا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1425 ).

دوسرى شرط:

يہ رضاعت دو برس كى عمر ميں ہو ( يعنى بچے كى عمر دو برس سے زائد نہ ہو ) كيونكہ حديث ميں اس كا ثبوت ملتا ہے:

عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" رضاعت وہى ہے جو انتڑيوں كو پھلا دے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1946 ) صحيح الجامع حديث نمبر ( 7495 ).

امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں باب باندھتے ہوئے كہا ہے:

" اس قول كے بارہ ميں باب جو دو برس كى عمر كے بعد رضاعت نہيں تسليم كرتا "

كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جو رضاعت پورى كرنا چاہے وہ دو برس مكمل دودھ پلائے .

رضعۃ يعنى ايك بار دودھ پلانا يہ ہے كہ: بچہ پستان سے دودھ چوس كر خود ہى چھوڑ دے، يعنى سانس لينے كے ليے چھوڑے يا دوسرا پستان پكڑنے كے ليے تو يہ ايك بار كہلائيگا.

اس ليے بعض اوقات تو ايك ہى مجلس يعنى ايك ہى وقت ميں پانچ رضعات پورى ہو سكتى ہيں.

اس ليے اگر آپ كى بھانجى نے آپ كا پانچ رضعات دودھ پيا ہے تو وہ آپ كى رضاعى بيٹى بن گئى اور آپ كى اولاد كى بہن بن جائيگى، اور اگر كسى اور بچى نے بھى آپ كا پانچ رضعات دودھ پيا ہو تو اس كى بھى بہن جائيگى.

اسى طرح اگر آپ كے بيٹے نے اپنى خالہ كا پانچ رضعات دودھ پيا تو اس كى خالہ رضاعى ماں بن جائيگى، اور اس كى سارى اولاد كا بھائى بن جائيگا، اور جس نے بھى اس كا دودھ پيا اس كا رضاعى بھائى بن جائيگا.

تحريم صرف اس بچے اور بچى كے متعلق ہى نہيں جس كے بارہ ميں سوال كيا گيا، بلكہ وہ آپكى سارى اولاد كى بہن جائيگى چاہے وہ موجود ہيں يا پھر بعد ميں پيدا ہونگے، اور آپ كے خاوند كى رضاعى بيٹى ہو گى، اسى طرح آپ كے خاوند كى كسى بھى دوسرى بيوى سے پيدا شدہ اولاد كى بھى رضاعى بہن ہوگى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب