ہفتہ 1 جمادی اولی 1446 - 2 نومبر 2024
اردو

ممنوعہ اوقات ميں نمازيں قضاء كرنا

20013

تاریخ اشاعت : 24-06-2006

مشاہدات : 10998

سوال

مجھے كچھ لوگوں نے كہا ہے كہ: ميں نماز عصر كے فورا بعد قضاء نماز ادا نہيں كر سكتا، آپ سے گزارش ہے كہ اس قول كے متعلق تفصيلى جواب ديں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بعض ايسے اوقات ہيں جن ميں نماز ادا كرنى ممنوع ہے، جن اوقات ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز ادا كرنے سے منع فرمايا ہے انہيں ذيل ميں پيش كيا جاتا ہے:

1 - نماز فجر كے بعد طلوع آفتاب تك حتى كہ سورج ايك نيزہ كے برابر اونچا ہو جائے، يعنى سورج نكلنے كے تقريبا پندرہ منٹ بعد تك.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 162 ).

2 - جب سورج بالكل آسمان كے وسط ميں آ جائے، يہ بہت ہى كم وقت ہوتا ہے، اور ظہر كى نماز كا وقت شروع ہونے سے تقريبا پندرہ يا بيس منٹ قبل.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 11 / 286 ).

اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ اس سے بھى كم وقت ہے، ابن قاسم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ بہت ہى قليل سا وقت ہے جو نماز كے ليے كافى نہيں ہوتا، ليكن اتنا وقت ہوتا ہے كہ اس ميں تكبير تحريمہ كہى جا سكے. اھـ

ديكھيں: حاشيۃ ابن قاسم على الروض المربع ( 2 / 245 ).

3 - نماز عصر كے بعد سے ليكر غروب آفتاب تك.

بہت سى احاديث ميں ان ممنوعہ اوقات كا ذكر ملتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان اوقات ميں نماز ادا كرنے سے منع فرمايا، ذيل ميں ہم اس كے متعلق چند ايك احاديث پيش كرتے ہيں:

1 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نماز عصر كے بعد غروب آفتاب تك كوئى نماز نہيں ہے، اور نہ ہى نماز فجر كے بعد طلوع آفتاب ہونے تك كوئى نماز ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 586 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 728 ).

2 - امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عمرو بن عبسہ السلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ: ميں عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى نے جس چيز كا آپ كو علم ديا اور مجھے جاہل ركھا مجھے وہ بتائيں، مجھے نماز كے متعلق بتائيں:

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" صبح كى نماز ادا كرو اور پھر نماز ادا كرنے سے رك جاؤ حتى كہ طلوع آفتاب بلند ہو جائے... پھر نماز ادا كرو كيونكہ يہ نماز مشہود ہے اور اس ميں حاضر ہوا جاتا ہے، اس وقت تك نماز ادا كرو جب تك نيزے كا سايہ ٹھر جائےـ اور يہ وہ وقت ہو گا جب آفتاب بالكل آسمان كے وسط ميں ہوتا ہے ـ پھر نماز ادا نہ كرو كيونكہ اس وقت جہنم بھڑكائى جاتى ہے، اور جب سايہ آ جائے ـ اور يہ ظہر كى نماز كااول وقت ہے ـ پھر نماز ادا كرو، كيونكہ يہ نماز مشہود ہے اور اس ميں حاضر ہوا جاتا ہے، اور عصر كے وقت تك نماز ادا كرتے رہو، اسكے بعد غروب آفتاب تك نماز ادا كرنے سے باز رہو .... "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 832 ).

دوم:

نماز كى قضاء كرنے سے مراد يہ ہے كہ نماز كا وقت نكل جانے كے بعد نماز ادا كى جائے، اور بطور قضاء ادا كردہ نماز يا تو فرضى ہوتى ہے يا پھر نفلى نماز.

رہا فرضى نماز كا مسئلہ تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ:

مسلمان پر واجب ہے كہ وہ نمازوں كى بروقت ادائيگى كى پابندى كرتے ہوئے اللہ تعالى كے مقرر كردہ وقت ميں نماز ادا كرے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا مؤمنوں پر نماز وقت مقررہ پر فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).

يعنى نمازوں كے محدود اور مقرر وقت ہيں.

اور بغير كسى عذر كے نماز ميں اتنى تاخير كرنا كہ نماز كا وقت ہى نكل جائے، يہ حرام اور كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتا ہے.

اگر مسلمان شخص كو كوئى عذر پيش آجائے مثلا سويا رہے، يا پھر بھول جائے اور بروقت نماز ادا نہ كر سكے، تو عذر زائل اور ختم ہوتے ہى اس كے ليے نماز كى ادائيگى واجب ہو گى، چاہے ممنوعہ وقت ہى كيوں نہ ہو، جمہور علماء كا قول يہى ہے.

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 2 / 515 ).

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى نماز سے سويا رہے يا بھول جائے تو جب اسے ياد آئے نماز ادا كر لے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 597 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ).

اور رہا نفلى نماز كا مسئلہ:

ممنوعہ اوقات ميں اس كى قضاء كے متعلق علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، صحيح يہى ہے كہ اس كى قضاء كى جائيگى، امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: المجموع ( 4 / 170 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے اختيار كيا ہے، جيسا كہ فتاوى ابن تيميہ ميں ہے.

ديكھيں: فتاوى ابن تيميۃ ( 23 / 127 ).

اس پر كئى ايك احاديث دلالت كرتى ہيں، ذيل ميں ہم چند احاديث پيش كرتے ہيں:

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالى نے ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عصر كى نماز كے بعد دو ركعت ادا كيں تو ميں نے ان سے ان دو ركعتوں كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرے پاس عبد القيس كے كچھ لوگ آئے تھے تو ميں ظہر كے بعد والى دو ركعت ادا نہيں كر سكا تھا، يہ وہ دو ركعتيں ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1233 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 834 ).

ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالى نے قيس بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو صبح كى نماز كے بعد دو ركعت ادا كرتے ہوئے ديكھا تو فرمانے لگے:

كيا صبح كى نماز دو بار ہے ؟

وہ شخص كہنے لگا: ميں فجر كى پہلى دو ركعت ادا نہيں كر سكا تھا، تو وہ ميں اب ادا كى ہيں.

راوى كہتے ہيں: چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش ہو گئے"

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1154 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 948 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خاموش رہنا اس كے جائز ہونے پر دلالت كرتا ہے. اھـ

ديكھيں: المغنى ( 2 / 532 ).

اللہ تعالى ہى زيادہ علم والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد