منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

نماز ميں قنوت كرنا

20031

تاریخ اشاعت : 24-01-2006

مشاہدات : 18133

سوال

ميں نماز ميں دعاء قنوت كے متعلق دريافت ( ركوع كے بعد ہاتھ اٹھا كر دعاء كرنا ) كرنا چاہتا ہوں كہ آيا يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے يا كہ يہ كسى حالت ميں جس پر وہ تھے كى بنا پر استثنائى عمل ہے، گزارش ہے كہ آپ ميرے سوال كا جواب ديں كيونكہ ہمارى مسجد كے امام صاحب نے كہا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سوال كيا گيا كہ كونسى نماز افضل ہے ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا: جس ميں دعا قنوت لمبى كى جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فقھاء نے قنوت كى تعريف يہ كى ہے:

" نماز ميں قيام كے اندر مخصوص جگہ ميں دعاء كا نام ہے"

علماء كرام كے صحيح اقوال كے مطابق نماز وتر ميں ركوع كے بعد دعا قنوت مشروع ہے.

اور جب مسلمانوں پر مصائب كا شكار ہوں تو مسلمانوں كے ليے مشروع ہے كہ وہ نماز پنجگانہ ميں سے ہر فرضى نماز كى آخرى ركعت ميں ركوع كے بعد دعا قنوت كريں حتى كہ اللہ تعالى ان سے وہ مصيبت دور كر دے اور مسلمانوں سے نجات دے دے.

ديكھيں: كتاب تصحيح الدعاء تاليف الشيخ ابو بكر ابو زيد ( 460 ).

اور ہر قسم كے حالات ميں نماز فجر ميں دعاء قنوت كرنا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز فجر كو دعاء قنوت كے ليے خاص كيا ہو، اور نہ ہى يہ ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز فجر ميں دعاء قنوت ہميشہ اور اس پر مداومت كى ہو.

بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو يہ ثابت ہے كہ مصائب كے وقت اس كے مناسب قنوت فرمائى، لہذا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صبح كى نماز ميں بھى قنوت كروائى اور دوسرى نمازوں ميں بھى جس ميں وہ رعل اور ذكوان قبيلے جنہوں نے نبى عليہ السلام كے بھيجے ہوئے قراء كرام صحابہ كو قتل كر ديا تھا، جنہيں دين كى تعليم كے مبلغ بنا كر بھيجا گيا تھا، اور يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صبح اور دوسرى نمازوں ميں كمزور مسلمانوں كے ليے دعا كيا كرتے تھے كہ اللہ تعالى انہيں دشمن سے نجات دلائے، ليكن اس پر مداومت اور ہميشگى نہيں كى.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد خلفاء راشدين بھى اسى طريقہ پر عمل كرتے رہے، امام كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ مصائب كے وقت دعا قنوت كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرنے پر ہى اكتفا كرے.

ابو مالك اشجعى بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اپنے باپ سے كہا:

اے ابا جان آپ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے نمازيں ادا كى اور ابو بكر اور عمر فاروق اور عثمان غنى اور على رضى اللہ تعالى عنہم كے پيچھے بھى نمازيں ادا كيں، تو كيا وہ نماز فجر ميں دعاء قنوت كيا كرتے تھے ؟

تو انہوں نے كہا: ميرے بيٹے يہ نئى ايجاد ہے.

اسے ابو داود كے علاوہ باقى پانچوں نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الارواء الغليل ( 435 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور سب سے بہترين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ہى طريقہ ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ الافتاء ( 7 / 47 ).

اور اگر آپ يہ كہيں كہ:

كيا نماز وتر كى دعاء قنوت كے ليے كوئى خاص اور محدود دعاء ہے، اور مصيبت اور مشكلات كے وقت كى دعاء خاص ہے؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

نماز وتر كى دعاء قنوت كے ليے كئى ايك دعائيں وارد ہيں، جن ميں سے كچھ يہ ہيں:

1 - وہ دعاء جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو سكھائى تھى وہ يہے:

" اللهم اهدني فيمن هديت ، وعافني فيمن عافيت ، وتولني فيمن توليت ، وبارك لني فيما أعطيت ، وقني شر ما قضيت ، فإنك تقضي ولا يقضى عليك ، إنه لا يذل من واليت ، ولا يعز من عاديت ، تباركت ربنا وتعاليت ، لا منجى منك إلا إليك "

اے اللہ مجھے ہدايت نصيب فرما، اور مجھے عافيت سے نواز، اور ميرا كارساز بن، اور جو كچھ تو نے مجھے ديا ہے اس ميں بركت فرما، اور جو تو نے فيصلہ كيا ہے اس كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے، اور تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، جس كارساز تو بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كر سكتا، اور جس كے خلاف تو ہو جائے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند ہے، تيرے علاوہ كہيں اور پناہ اور نجات نہيں ہے"

ابو داود حديث نمبر ( 1213 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1725 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الارواءل الغليل حديث نمبر ( 429 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

2 - على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر كے آخر ميں يہ دعا پڑھا كرتے تھے:

" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ "

اے ميں تيرى رضا كے ساتھ تيرى ناراضگى سے پناہ چاہتا ہوں، اور تيرى سزا سے تيرى عافيت كے ساتھ، اور تيرى پناہ ميں آتا ہوں، ميں تيرى حمد و ثناء شمار ہى نہيں كرسكتا، جس طرح تو نے اپنى ثناء بيان كى ہے"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1727 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الارواء الغليل ( 430 ) اور صحيح ابو داود ( 1282 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ دعاء پڑھنے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے جيسا كہ بعض صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہ سے قنوت وتر كے آخر ميں ثابت ہے، ان صحابہ ميں ابى بن كعب، اور معاذ انصارى رضى اللہ تعالى عنہم شامل ہيں.

ديكھيں: تصحيح الدعاء للشيخ بكر ابو زيد ( 460 ).

قنوت نازلہ:

مصائب اور مشكلات كے وقت كى دعاء قنوت:

مشكلات اور مصائب كے وقت حالات كے مناسب دعاء كرے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہے كہ انہوں نے عرب كے ان قبائل پر لعنت كى جنہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ بد عہدى اور غدارى كرتے ہوئے انہيں شہيد كر ديا تھا، اور مكہ ميں رہنے والے كمزور اور ضعيف و ناتواں مسلمانوں كے ليے دعاء فرمائى كہ اللہ تعالى انہيں نجات دے، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ انہوں نے قنوت نازلہ ميں مندرجہ ذيل دعاء پڑھى:

" اللهم إنا نستعينك ونؤمن بك ، ونتوكل عليك ونثني عليك الخير ولا نكفرك ، اللهم إياك نعبد ، ولك نصلي ونسجد ، وإليك نسعى ونحفد ، نرجو رحمتك ونخشى عذابك ، إن عذابك الجدَّ بالكفار مُلحق ، اللهم عذِّب الكفرة أهل الكتاب الذين يصدون عن سبيلك "

اے اللہ ہم تجھ سے ہى مدد مانگتے ہيں، اور تجھ پر ايمان لاتے ہيں، اور تجھ پر بھروسہ اور توكل كرتے ہيں، اور تيرى ثنائے خير بيان كرتے ہيں، اور تيرے ساتھ كفر نہيں كرتے، اے اللہ ہم تيرى ہى عبادت كرتے ہيں، اور تيرے ليے ہى نماز ادا كرتے اور تيرے سامنے ہى سجدہ كرتے ہيں، اور تيرى طرف ہى رجوع كرتے ہيں، ہم تيرى رحمت كى اميد ركھتے، اور تيرے عذاب سے ڈرتے ہيں، يقينا تيرا عذاب كفار كو پہنچنے والا ہے، اے اللہ اہل كتاب كے كافروں كو جو تيرى راہ سے روكتے ہيں انہيں عذاب سے دوچار كردے"

سنن بيہقى ( 2 / 210 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الاراء الغليل ( 2 / 170 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ( يہ روايت ) عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے نماز فجر ميں ثابت ہے، اور ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ قنوت نازلہ ہے جيسا كہ ان كى دعاء ميں كفار كے ليے بد دعاء كى گئى ہے.

اور اگر آپ يہ كہيں كہ: كيا ان مذكورہ دعاؤں كے علاوہ كوئى اور دعاء كرنا بھى ممكن ہے؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

جى ہاں ايسا كرنا جائز ہے، امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

صحيح اور مشہور يہ ہے جس كو جمہور علماء نے قطعى طور پر بيان كيا ہے كہ يہى متعين نہيں ( يعنى انہى الفاظ كے ساتھ ہى دعاء قنوت متعين نہيں ) بلكہ ہر دعاء كے ساتھ ہو سكتى ہے. اھـ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 497 ).

اور اس ليے كہ وارد شدہ الفاظ اور صيغہ بذاتى متعين نہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان الفاظ كے ساتھ دعا نہيں كى، تو اس ميں اور الفاظ زيادہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.

شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس دعاء ميں كفار پر لعنت كے الفاظ زيادہ كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود كے الفاظ زيادہ كرنے اور مسلمانوں كے ليے دعاء كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: قيام رمضان للالبانى ( 31 ).

يہاں ايك اہم مسئلہ باقى ہے كہ:

كيا دعاء قنوت ركوع سے قبل ہو گى يا بعد ميں؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

" اكثر احاديث اور اكثر اہل علم كے ہاں يہ ہے كہ: دعاء قنوت ركوع كے بعد ہے، اور اگر ركوع سے قبل بھى كى لى جائے تو كوئى حرج نہيں، اسے يہ اختيار ہے كہ قرآت مكمل كرنے كے بعد ركوع كرے اور پھر ركوع سے اٹھنے كے بعد ربنا ولك الحمد كہنے كے بعد دعاء قنوت كر لے.... يا پھر اسے يہ اختيار ہے كہ وہ قرآت مكمل كرنے كے بعد دعاء قنوت كرے اور پھر ركوع كر لے، يہ سب سنت ميں وارد ہے" انتہى

ماخوذ از الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 64 ).

تنبيہ:

سائل يہ كہنا كہ: ( وہ نماز افضل ہے جس ميں دعاء قنوت لمبى ہو )

ہو سكتا ہے وہ اس حديث كى طرف اشارہ كرنا چا رہا ہو جو مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كى ہے، كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" افضل نماز وہ ہے جس ميں قنوت لمبى ہو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1257 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ميرے علم كے مطابق علماء كرام كے اتقاق كے مطابق يہاں قنوت سے مراد قيام كا لمبا ہونا ہے. اھـ

لہذا اس حديث سے ركوع كے بعد دعاء قنوت مراد نہيں، بلكہ اس سے قيام كا لمبا ہونا مراد ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد