منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا وہ رہائش كے ليے واپس كفريہ ملك چلا جائے ؟

27211

تاریخ اشاعت : 09-04-2008

مشاہدات : 11413

سوال

مجھے بہت سے اہل علم نے كفار كے ممالك ( امريكہ ) ميں نہ رہنے كى نصيحت كى ہے، ميں عربى ہوں اور سارى عمر امريكہ ميں بسر كى ہے، اس وقت ايك اسلامى ملك ميں ملازمت كر رہا ہوں، اب ميرے ليے يہاں رہنا مشكل ہو رہا ہے ( آمدن ميں كمى اور رہائش كى مشكلات ہيں ) اب ميں امريكہ واپس جانے كى سوچ رہا ہوں، اس كا ايك دوسرا بنيادى سبب ميرى بيوى كى بيمارى ہے ميں وہاں ميرى بيوى كا علاج مفت ہو گا.
ميرى گزارش ہے كہ آپ مجھے قرآن و حديث كے دلائل كے ساتھ تفصيلا جواب سے نوازيں، كيا ميں مشكل ميں پڑ كر اسى ملك ميں رہوں، يا كہ امريكہ واپس پلٹ جاؤں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصلا تو مشركوں كے مابين اور ان كے ملك ميں رہنا حرام ہى ہے، جس كے ليے اللہ تعالى نے ان ملكوں سے نكل كر اسلامى ملكوں ميں جانا آسان كيا ہو اسے يہ زيب نہيں ديتا كہ وہ بہتر اور اچھى چيز كو چھوڑ كر ادنى اور كم تر چيز اخيتار كرے، ليكن اگر اس كے ليے كوئى ايسا عذر ہو جو اسے جائز كر دے تو پھر ٹھيك ہے.

ہم آپ كو بھى وہى نصيحت كرتے ہيں جو دوسروں كے ليے ہے، كہ آپ كفريہ ممالك ميں نہ رہيں، ليكن اگر آپ وہاں عارضى طور پر رہنا چاہيں مثلا علاج كے ليے جو اسلامى ملك ميں ميسر نہيں تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ جو كوئى شخص بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے اللہ تعالى اسے اس كے عوض ميں اس سے بھى بہتر عطا فرماتا ہے، اور يہ كہ مشكل كے ساتھ آسانى بھى ہے، اور يہ كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كا وہم و گمان بھى نہيں ہوتا.

اور يہ بھى اپنے علم ميں ركھيں كہ راس المال يعنى اصل مال كى حفاظت كرنا نفع ميں خطرہ مول لينے سے بہتر ہے، اور مسلمان شخص كا راس المال تو اس كا دين ہے، لھذا اسے عارضى اور زائل ہونے والى دنيا كے بدلے اسے اپنے دين ميں كوتاہى نہيں كرنى چاہئے.

كفار كے ممالك ميں رہنے كے حكم ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا ايك تفصيلى فتوى ہے، ذيل ميں اس ميں سے كچھ حصہ ذكر كيا جاتا ہے:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

كفار كے ممالك ميں رہنے ميں مسلمان كے ليے اس كے دين، اس كے اخلاق، اس كے سلوك، لين دين، اور آداب و تربيت كو بہت عظيم خطرہ لاحق ہے، ہم نے اور ہمارے علاوہ دوسروں نے بھى مشاہدہ كيا ہے كہ وہاں بسنے والوں كى اكثريت وہاں سے واپس پلٹى تو جو كچھ لے كر گئے تھے اس ميں سے بہت كچھ ضائع كرديا، وہ واپس پلٹے تو فاسق بن چكے تھے، اور ان ميں سے بعض اپنے دين سے مرتد ہو كر كفر كى حالت ميں واپس پلٹے، اور ( اللہ كى پناہ ) صرف اپنے دين كا ہى انكار نہيں بلكہ سب اديان كا انكار كرنے لگے.

حتى كہ مطلقا انكار كرنے لگے، اور دين اور دين پر چلنے والے اگلے پچھلے سب كے ساتھ استہزاء اور مذاق كرنے لگے، اور اس ليے ضرورى بلكہ يہ فرض ہو جاتا ہے كہ اس سے تحفظ اختيار كيا جائے، اور ايسى شروط وضع كى جائيں جو اس مہلك بيمارى ميں گرنے سے محفوظ ركھ سكيں.

لھذا كفريہ ممالك ميں رہنے كے ليے بنيادى طور پر دو شرطوں كا ہونا ضرورى ہے:

پہلى شرط:

وہاں رہنے والا اپنے دين كے متعلق امن ميں ہو اور اسے دين كے متعلق كوئى خطرہ لاحق نہ ہو، وہ اس طرح كہ اس كے پاس اتنا علم اور ايمان ہو، اور پختہ عزم ہو جو اسے دين پر ثابت قدم ركھے، اور دين سے انحراف اور كجى سے بچا كر ركھے، اور اس كے باطن ميں كفار كى دشمنى اور بغض چھپى ہوئى ہو جو اسے ان كى محبت اور ان سے دوستى كرنے سے دور ركھے.

كيونكہ كفار سے دوستى اور ان سے محبت كرنا ايمان كے منافى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھنے والى قوم كو آپ ان سے محبت كرتے ہوئے نہيں پائيں گے جو اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ دشمنى ركھتے ہيں، اگرچہ وہ ان كے باپ دادا، يا بيٹے، يا ان كے بھائى يا ان كا كنبہ قبيلہ ہى كيوں نہ ہو المجادلۃ ( 22 ).

اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:

اے ايمان والو! يہوديوں اور عيسائيوں كو دوست نہ بناؤ، وہ توآپس ميں ايك دوسرے كے دوست ہيں، اور تم ميں جو بھى ان كے ساتھ دوستى كرے گا بلا شبہ وہ انہى ميں سے ہے، يقينا اللہ تعالى ظالموں كى قوم كو ہدايت نصيب نہيں كرتا، آپ ديكھيں گے كہ جن كے دلوں ميں بيمارى ہے وہ دوڑ دوڑ كر ان ميں گھس رہے ہيں اور كہتے ہيں كہ ہميں خطرہ ہے، كہيں ايسا نہ ہو ہميں كوئى حادثہ نہ پيش آجائے، بہت ممكن ہے كہ اللہ تعالى فتح دے دے، يا اپنے پاس سے كوئى اور چيز لائے، پھر تو يہ اپنے دلوں ميں چھپائى ہوئى باتوں پر برى طرح نادم ہونے لگيں گے المائدۃ ( 51- 52 ).

اور صحيح بخارى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:

" جس نے كسى قوم سے محبت كى وہ انہيں ميں سے ہے"

اور ايك روايت ميں ہے:

" آدمى اسى كے ساتھ ہے جس سے اس نے محبت كى"

اور مسلمان شخص كے ليے تو اللہ تعالى كے دشمنوں كى محبت بہت زيادہ خطرناك ہے، كيونكہ ان كى محبت سے ان كى موافقت اور ان كى اتباع و پيروى لازم آتى ہے، يا پھر كم از كم ان كے سامنے انكار نہ كرنا لازم آتا ہے كہ ان كے كفر سے انہيں منع نہيں كيا جا سكتا، اور اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو كوئى بھى كسى قوم سے محبت كرتا ہے وہ انہى ميں سے ہے"

دوسرى شرط:

اس كے ليے اپنے دين كا اظہار كرنا ممكن ہو، وہ اس طرح كہ بغير كسى ممانعت كے وہ اسلامى شعائر پر عمل كر سكتا ہو، اسے نہ تو كوئى نماز كى ادائيگى سے روكے اور اگر اس كے ساتھ نماز ادا كرنے والے ہوں تو انہيں جمعہ اور جماعت كى ادائيگى سے نہ روكے، اور نہ ہى زكاۃ ادا كرنے اور روزے ركھنے اور حج كى ادائيگى سے بھى منع نہ كيا جاتا ہو، اس كے علاوہ باقى دينى شعائر بھى بجا لانا ممكن ہو.

اگر تو ان شعائر كا بجا لانا ممكن نہ ہو تو پھر اس وقت ہجرت واجب ہوجانے كى بنا پر وہاں رہنا جائز نہيں ہے....

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى وہاں رہنے والوں كى اقسام بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

چوتھى قسم:

وہاں كسى خاص اور مباح ضرورت كى بنا پر رہے، مثلا تجارت، يا علاج معالجہ كے ليے، تو بقدر ضرورت وہاں رہنا جائز ہو گا، اہل علم رحمہ اللہ نے تجارت كى بنا پر كفار كے ممالك ميں داخل ہونے كا جواز بيان كيا ہے، اور اس ميں انہوں نے صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم سے كئى ايك اثر بھى نقل كيے ہيں.

اور شيخ رحمہ اللہ تعالى ايك اور فتوى ميں كہتے ہيں:

ايك مومن شخص كا دل كس طرح راضى ہو سكتا ہے كہ وہ كفار كے ملك ميں رہائش اختيار كرے، جہاں كفريہ شعائر اور علامات كا اظہار ہوتا ہو، اور اس ميں غير اللہ كا حكم نافذ ہو اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ دوسرى كى بات تسليم كى جاتى ہو، اور وہ اس سب كچھ كا اپنى آنكھوں سے مشاہدہ كرتا رہے، اور اپنے كانوں سے سنتا رہے اور اس پر راضى ہو، بلكہ وہ اس ملك كى جانب منسوب بھى ہو اور اس ميں اپنے اہل و عيال كو ركھے، اور وہ اس ملك پر اس طرح مطمئن ہو جس طرح ايك اسلامى ملك پر مطمئن ہوا جاتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ جو اسے اور اس كى بيوى بچوں كو اور دينى اور اخلاقى طور پر جو خطرہ لاحق ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين فتوى نمبر ( 388 ).

آپ مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 27211 ) كے جواب ضرور ديكھيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب