ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

بنك ميں رقم ركھنى اور كيا ہاسپٹل كى تعمير زكاۃ كے مصاريف ميں سے ہے؟

39211

تاریخ اشاعت : 15-06-2009

مشاہدات : 7222

سوال

جس كے پاس كسى بنك يا توفير بك ميں كچھ رقم ركھى ہو اور اس كى سالانہ زكاۃ بھى ادا كى جاتى ہو تو كيا فائدہ كے سبب يہ مال مشكوك ہو گا؟
اور زكاۃ نكالنے كے متعلق سوال يہ ہے كہ كيا مال كا كچھ حصہ ہاسپٹل يا يتيم خانہ بنانے كے ليے ديا جا سكتا ہے ( كسى خاص ادارے كے اكاؤنٹ ميں مال جمع كروا كرنے كے ذريعہ ) يا كہ مال ہاتھوں ميں دينا ضرورى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سودى بنكوں ميں رقم ركھنى اور اس پر سود لينا اور فائدے كانام دينا كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، اور اس مال كى زكاۃ ادا كرنے سے صاحب مال كو گناہ سے نہيں بچاتى .

آپ سوال نمبر ( 22339 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں سود كى حرمت كا بيان ہے.

اور اسى طرح سوال نمبر ( 181 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں، كيونكہ اس ميں سودى بنكوں كےاندر مال ركھنے كى حرمت بيان كى گئى ہے.

دوم:

اور رہا مسئلہ زكاۃ كے مصاريف كاتو يتيم خانہ اور ہاسپٹل بنانے كے ليے زكاۃ دينا جائز نہيں، نہ تو ہاتھوں ہاتھ اور نہ ہى كسى واسطہ كے ذريعہ، كيونكہ زكاۃ كے مصرف محصورہ اور مقرر كردہ ہيں ان سے زيادہ كرنا جائز نہيں.

اللہ تعالى نے زكاۃ كےمصاريف مندرجہ ذيل فرمان ميں بيان فرمائے ہيں:

صدقے ( زكاۃ ) صرف فقيروں كے ليے ہيں اور مسكينوں كے ليے اور ان كے وصول كرنے والوں كے ليے، اور تاليف قلب كے ليے، اور گردن آزاد كرانے كےليے اور قرض داروں كے ليے اور اللہ كى راہ ميں اور راہرو مسافروں كے ليے التوبۃ ( 60 ).

اور زكاۃ كے ان مصاريف كى تفصيل اور وضاحت ہم نے سوال نمبر ( 6977 ) كے جواب ميں كى ہے اس كا مطالعہ كر ليں.

اور ہم نے سوال نمبر ( 13734 ) اور ( 21797 ) كے جوابات ميں مساجد اور مدارس كى تعمير اور اسى طرح قرآن مجيد كى طباعت كے ليے زكاۃ دينى جائز نہيں تفصيل سے بيان كيا ہے لہذا آپ ان سوالات كے جوابات ديكھيں.

ليكن اگر اس زكاۃ كو يتيم خانہ ميں اس ليے لگايا جارہا ہو كہ اس سے يتيم فقراء پر خرچ كيا جائے گا تو پھر اگر يتيم فقراء ہوں تو جائز ہے.

اور افضل اور بہتر يہ ہے كہ زكاۃ دينے والا خود زكاۃ كو خود صرف كرے تا كہ اسے علم ہو كہ اس نےزكاۃ اللہ تعالى كے حكم كے مطابق صرف كى ہے، آپ كو چاہيے كہ آپ مستحق افراد كى تحديد ميں كوشش كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب