منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اللہ تعالى شديد العقاب ہے

43012

تاریخ اشاعت : 25-08-2007

مشاہدات : 6833

سوال

ميرا ايك دوست گانے سنتا ہے، اور جب ميں اسے نصيحت كرتا ہوں تو وہ مجھے كہتا ہے يقينا اللہ تعالى بہت غفور رحيم ہے، ليكن ميں اسے كہتا ہوں، اللہ تعالى شديد العقاب بھى ہے .... ميں سنت نبويہ سے دليل چاہتا ہوں كہ اللہ تعالى شديد العقاب ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دوست كو راہ راست پر لانے كى حرص ركھنے پر ہم سائل كے شكر گزار ہيں، كيونكہ حقيقت ميں دوست اپنے بھائيوں كو نصيحت اور راہنمائى كرتے رہتے ہيں، اور مال كمانے كى بجائے وہ ہدايت كى حرص ركھتے ہيں اس ميں وہ سستى و كاہلى سے كام نہيں ليتے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور مومن مرد اور مومن عورتيں ايك دوسرے كے دوست اور ولى ہيں وہ ايك دوسرے كو نيكى كا حكم ديتے اور برائى سے روكتے ہيں، اور نماز كى پابندى كرتے اور زكاۃ ادا كرتے ہيں، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے ہيں، انہى لوگوں پر اللہ تعالى اپنى رحمت كريگا، يقينا اللہ تعالى غالب حكمت والا ہے التوبۃ ( 71 ).

دوم:

جمہور علماء كرام گانے بجانے كى حرمت كے قائل ہيں، اس ليے كہ گانے بجانے كى حرمت كے كتاب و سنت ميں بہت سارے دلائل پائے جاتے ہيں، اور ابن عباس، ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم اور شعبى، ثورى وغيرہ دوسرے علماء كرام سے يہى منقول ہے.

ديكھيں: سنن البيھقى ( 10 / 223 ) محلى ابن حزم ( 9 / 59 ) المغنى ابن قدامہ ( 14 / 160 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 5000 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

سوم:

اللہ تعالى كے عذاب كى شدت كے متعلق آيات و احاديث بہت ہيں جن كى دو قسموں ميں تقسيم ممكن ہے:

پہلى قسم:

وہ آيات و احاديث جن كا بلا واسطہ گانے بجانے سے تعلق ہے.

دوسرى قسم:

اللہ تعالى كى عذاب كى عمومى شدت.

پہلى قسم كے متعلق كئى ايك احاديث وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں درج كى جاتى ہيں:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم نے فرمايا:

" دو آوازيں دنيا و آخرت ميں ملعون ہيں: نعمت اور خوشى كے وقت بانسرى كى آواز، اور مصيبت كے وقت آہ بكاہ "

اسے البزار نے روايت كيا ہے، اور المقدسى نے الاحاديث المختارہ ميں، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " تحريم آلات الطرب " كے صفحہ ( 51 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اللہ تعالى كى رحمت سے دورى كا نام لعنت ہے.

عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس امت ميں خسف ( زمين ميں دھنسانا ) اور مسخ ( شكليں مسخ كرنا ) اور قذف ( پتھروں كى بارش ) ہو گا، تو مسلمانوں ميں سے ايك شخص نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ كب ہو گا ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب گانے بجانے والياں اور موسيقى كے آلات ظاہر ہوں گے، اور شراب نوشى كى جانے لگے گى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2138 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

دوسرى قسم:

قرآن كريم كے دلائل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن آگ اور پتھر ہيں، اس پر ايسے سخت رو شديد قسم كے فرشتے مقرر ہيں جو اللہ تعالى كى نافرمانى نہيں كرتے، اور وہى كرتے ہيں جس كا انہيں حكم ديا گيا ہے التحريم ( 6 ).

اور ايك دوسرے مقام پر فرمان ربانى ہے:

جس دن وہ اپنے منہ كے بل آگ ميں گھسيٹے جائيں گے، اور ان سے كہا جائيگا دوزخ كى آگ لگنے كے مزے چكھو القمر ( 48 ).

اور ايك اور مقام پر رب جلا و علا كا فرمان ہے:

تو اگر تم ايسا نہ كر سكو، اور تم ہر گز نہيں كر سكو گے تو تم اس آگ سے ڈر جاؤ جس كا ايندھن آگ اور پتھر ہيں البقرۃ ( 24 ).

اور ارشاد بارى تعالى ہے:

جب كہ ان كى گردنوں ميں طوق ہوں گے، اور زنجريں ہوں گى انہيں كھولتے ہوئے پانى ميں گھسيٹا جائيگا، اور پھر جہنم كى آگ ميں جلائے جائيں گے المومن ( 71 - 72 ).

اور فرمان بارى تعالى ہے:

اور انہوں نے فيصلہ طلب كيا، اور تمام سركش ضدى لوگ نامراد ہو گئے، اس كے سامنے جہنم ہے، جہاں اسے پيپ كا پانى پلايا جائيگا، جسے وہ بمشكل گھونٹ گھونٹ كر كے پئےگا، پھر بھى وہ گلے سے اتار نہ سكےگا اور اسے ہر جگہ سے موت آتى دكھائى دےگى، ليكن وہ مرنے والا نہيں، پھر اس كے پيچھے بھى سخت عذاب ہے ابراہيم ( 15 - 17 )

اور ارشاد بارى تعالى ہے:

بيشك زقوم ( تھوہر ) كا درخت گنہگار كا كھانا ہے، جو تلچھٹ كى طرح ہے، اور پيٹ ميں كھولتا رہےگا تيز گرم پانى كى طرح، اسے پكڑ لو پھر گھسٹتے ہوئے جہنم كے بيچ لے جاؤ، پھر اس كے سر پر سخت گرم پانى كا عذاب بہاؤ، ( اسے كہا جائيگا ) چكھتا جا تو بہت عزت اور بڑے اكرام والا تھا الدخان ( 43 - 49 ).

اور ايك مقام پر اللہ عزوجل كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

كافروں كے ليے آگ كے كپڑے بنا كر كاٹے جائينگے، اور ان كے سروں پر سخت كھولتا ہوا پانى بہايا جائيگا، جس سے ان كے پيٹ كى سب چيزيں اور كھاليں گلا دى جائينگى، اور ان كى سزا كے ليے لوہے كے ہتھوڑے ہيں يہ جب بھى وہاں كے غم سے نكل بھاگنے كا ارادہ كرينگے انہيں واپس لوٹا ديا جائيگا، ( اور كہا جائيگا ) جلنے كا عذاب چكھو الحج ( 19 - 22 ).

اس كے علاوہ اور بھى بہت سارى آيات ہيں.

سنت نبويہ كے دلائل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" قيامت كے روز جہنم لائى جائيگى تو اس كى ستر ہزار لگاميں ہونگى، اور ہر ايك لگام كے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہونگے جو اسے كھينچ رہے ہونگے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2842 ).

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" تمہارى يہ آگ جو ابن آدم جلاتا ہے يہ جہنم كى آگ كے سترويں حصہ سے ايك حصہ ہے "

صحابہ كرام عرض كرنے لگے: اللہ كى قسم اگر اتنى ہى ہوتى تو كافى تھى.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جہنم كى آگ اس آگ سے انہتر درجہ زيادہ ہے، اور ہر ايك حصہ كى گرمى اس آگ جتنى ہى ہے "

صحيح بخاى حديث نمبر ( 3265 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2843 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك حديث ميں كچھ اس طرح فرمايا:

" جو شخص نشہ آور چيز پيتا ہے اللہ تعالى كا اس سے عہد ہے كہ وہ اسے طينۃ الخبال پلائےگا "

صحابہ كرام نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم طينۃ الخبال كيا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جہنميوں كا پسينہ، يا جہنميوں كا نچوڑ اور پيپ ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2002 ).

اور ايك حديث ميں فرمان نبوى ہے:

" اگر دنيا ميں زقوم ( تھوہر ) كا ايك قطرہ ٹپكا ديا جائے تو دنيا والوں كے ليے ان كى معيشت خراب ہو كر رہ جائے، تو جس كا يہ كھانا ہو گا اس كى حالت كيا ہو گى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2585 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5126 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں ارشاد نبوى ہے:

" جہنميوں ميں سب سے كم ترين عذاب والا وہ شخص ہو گا جسے آگ كى جوتى اور تسمے پہنائے جائينگے، جس سے اس كا دماغ اس طرح كھولے گا جس طرح ہنڈيا كھولتى ہے، وہ يہ سمجھے گا كہ اس سے سخت اور شديد عذاب كسى اور كو نہيں ہو رہا، حالانكہ اسے سب سے كم عذاب ہو گا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6562 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 213 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ارشاد ہے:

" دنيا ميں ناز و نعمت والے جہنمى شخص كو لا كر جہنم كى آگ ميں صرف ايك غوطہ ديا جائيگا، پھر اس سے دريافت كيا جائيگا: اے ابن آدم كيا تم نے كبھى كوئى خير ديكھى ہے ؟

كيا كبھى تم پر كوئى نعمت ہوئى ؟

تو وہ جواب ميں كہےگا: اے ميرے پروردگار اللہ كى قسم نہيں كبھى نہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2707 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ارشاد مبارك ہے:

" اگر اس مسجد ميں ايك لاكھ يا اس سے بھى زيادہ لوگ ہوں اور ان ميں صرف ايك شخص جہنم والوں ميں سے ہو اور وہ سانس لے اور وہ سانس كى ہوا انہيں لگ جائے تو وہ مسجد اور اس ميں جو ہيں وہ سب جل جائيں "

اسے بزار نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 3668 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور " الجواب الكافى " ميں ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور بہت سے جاہل قسم كے لوگ اللہ تعالى كى رحمت اور عفو و كرم پر اعتماد كرتے ہوئے كر بيٹھتے ہيں، اور انہوں نے اللہ تعالى كے امر و نہى كو ضائع كر ديا، اور وہ اللہ تعالى كى سز و عقاب كو بھول بيٹھے ہيں كہ اللہ تعالى كا عذاب مجرموں سے نہيں ہٹتا، اور جو شخص گناہ پر مصر رہنے كے ساتھ ساتھ اللہ كى بخشش و معافى پر اعتماد كر بيٹھتا ہے تو وہ معاند اور سركش كى طرح ہى ہے.

اور بعض علماء كا كہنا ہے:

جس نے دنيا ميں صرف تين درہم كى چورى كى سزا ميں تيرا ايك عضو كاٹ ديا، تو تم يہ نہ سمجھو كہ آخرت ميں بھى اس كى سزا اتنى ہى اور اس جيسى ہو گى.

اور حسن رحمہ اللہ سے كہا گيا:

ہم ديكھتے ہيں كہ آپ بہت زيادہ اور لمبا روتے ہيں ؟

تو انہوں نے جواب ديا: مجھے خوف رہتا ہے كہ وہ مجھے آگ ميں ڈال اور كوئى پرواہ نہ كرے.

اور وہ كہا كرتے تھے:

كچھ لوگ ايسے ہيں جنہيں بخشش كى اميد نے تباہ كر كے ركھ ديا حتى كہ وہ توبہ كيے بغير ہى مر گئے، ان جيسے افراد ميں سے ايك كا يہ كہنا ہے كہ: ميں اپنے پروردگار سے اچھا گمان ركھتا ہوں، حالانكہ وہ اپنے اس دعوى ميں جھوٹا ہے، كيونكہ اگر وہ اپنے رب كے ساتھ گمان اچھا ركھتا تو عمل بھى اچھے كرتا.

پھر ابن قيم رحمہ اللہ نے اللہ تعالى كے عذاب كى شدت كے دلائل ميں بعض احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:

اس موضوع اور باب ميں احاديث اس سے بھى بہت زيادہ ہيں جو ہم نے بيان كى ہيں، اس ليے جسے اس كى نفى كى نصيحت كى جائے اسے ان احاديث سے چشم پوشى نہيں كرنى چاہيے، اور وہ اپنے نفس كو معاصى كرنے ميں چھوڑ دے، اور حسن ظن اور حسن اميد سے معلق رہے " اھـ مختصرا.

ديكھيں: الجواب الكافى صفحہ نمبر ( 53 - 68 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب