منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

حائضہ عورت كا تعليم يا حفظ قرآن كے ليے مسجد ميں داخل ہونا

60213

تاریخ اشاعت : 23-03-2007

مشاہدات : 13080

سوال

ايك حائضہ عورت مسجد كى علمى مجلس يا حفظ قرآن كى كلاس ميں شامل ہونا چاہتى ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ كلاس سے غائب نہيں ہوتى اور اگر غائب ہو تو بہت سے مسائل كا حصول ناممكن ہو جائيگا جو بعد ميں حاصل نہيں ہو سكتے، تو كيا اس كے ليے كسى معين شروط كے ساتھ مسجد ميں داخل ہونا جائز ہے، اور اس مسئلہ ميں علماء كرام كى راجح رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مذاہب اربعہ كے جمہور فقھاء كے ہاں حائضہ عورت كے ليے مسجد ميں ٹھرنا جائز نہيں، ان كے دلائل درج ذيل ہيں:

ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں بالغ اور كنوارى عورتيں بھى عيد گاہ جائيں، اور حائضہ عورتيں بھى ليكن وہ مسلمانوں كى نماز والى جگہ سے دور رہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 974 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).

چنانچہ اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حائضہ عورت كو عيدگاہ ميں نماز والى جگہ سے دور رہنے كا حكم ديا ہے، كيونكہ نماز والى جگہ كو مسجد كا درجہ حاصل ہے، جو اس بات كى دليل ہے كہ حائضہ عورت مسجد ميں داخل نہيں ہو سكتى.

اس كے علاوہ اور احاديث سے بھى استدلال كيا ہے ليكن وہ احاديث ضعيف ہيں ان سے حجت پكڑنى صحيح نہيں، ان ضعيف احاديث ميں يہ بھى شامل ہے:

" ميں حائضہ اور جنبى شخص كے ليے مسجد حلال نہيں كرتا "

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف سنن ابو داود حديث نمبر ( 232 ) ميں ضعيف قرار ديا ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

صرف خطبہ سننے كے ليے حائضہ عورت كا مسجد ميں داخل ہونے كا شريعت اسلاميہ ميں كيا حكم ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" حيض يا نفاس والى عورت كے ليے مسجد ميں داخل ہونا حلال نہيں... ليكن اگر صرف گزرنے كى ضرورت ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ مسجد ميں گندگى نہ پھيلے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور نہ ہى جنبى شخص مگر يہ كہ راہ عبور كرنے والا ہو حتى كہ تم غسل كر لو النساء ( 43 ).

اور حائضہ عورت بھى جنبى كے معنى ميں ہے؛ اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو حالت حيض ميں حكم ديا كہ وہ مسجد سے كوئى چيز پكڑائيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 272 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

كيا حائضہ عورت مساجد كے اندر درس ميں شريك ہو سكتى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" حائضہ عورت كے ليے مسجد ميں ٹھرنا جائز نہيں، ليكن بطور ضرورت وہ مسجد سے گزر سكتى ہے بشرطيكہ مسجد ميں خون كى گندگى نہ پھيلے، اور جب اس كے ليے مسجد ميں ٹھرنا جائز نہيں تو درس سننے اور قرآن كى تلاوت كے ليے مسجد ميں عورت كا جانا بھى حلال نہيں.

ليكن اگر مسجد سے باہر كوئى ايسى جگہ ہو جہاں لاؤڈ سپيكر كے ذريعہ آواز آرہى ہو تو وہاں جا كر بيٹھنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ حائضہ عورت كے ليے قرآن كى تلاوت اور درس وغيرہ سننے ميں كوئى حرج نہيں جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى گود ميں ٹيك لگا كر قرآن كى تلاوت كيا كرتے تھے اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا حيض كى حالت ميں ہوتى.

ليكن اس كا مسجد ميں اس ليے جانا كہ وہ وہاں بيٹھ كر درس سنے يا قرآن مجيد كى تلاوت كرے تو يہ جائز نہيں، اسى ليے جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حجۃ الوداع كے موقع پر پتہ چلا كہ صفيہ رضى اللہ تعالى عنہا كو حيض آ گيا ہے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا وہ ہميں روكنے والى ہے ؟ "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خيال تھا كہ انہوں نے ابھى طواف افاضہ نہيں كيا، تو صحابہ كرام نے جواب ديا كہ وہ طواف افاضہ كر چكى ہيں.

يہ اس بات كى دليل ہے كہ حائضہ عورت كا مسجد ميں ٹھرنا جائز نہيں چاہے وہ عبادت كے ليے ہى كيوں نہ ہو، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بھى ثابت ہے كہ آپ نے عورتوں كو عيد كے موقع پر عيد گاہ جانے كا حكم ديا اور فرمايا كہ حائضہ عورتيں نماز والى جگہ سے دور رہيں " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى الطہارۃ صفحہ نمبر ( 273 ).

فقھاء كے مذاہب كى مزيد تفصيل آپ درج ذيل كتب ميں ديكھ سكتے ہيں:

المبسوط ( 3 / 153 ) حاشيۃ الدسوقى ( 1 / 173 ) المجموع ( 2 / 388) المغنى ( 1 / 195 ).

دوم:

حائضہ عورت قرآن مجيد چھوئے بغير زبانى تلاوت كر سكتى ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 2564 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.

اور وہ تفسير والا قرآن مجيد بھى پڑھ سكتى ہے اس ميں كوئى حرج نہيں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:

" كتب تفسير كو چھونا جائز ہے، كيونكہ وہ تفسير شمار ہونگى، اور اس ميں جو آيات ہيں وہ اس تفسير والى عبارت سے كم ہيں "

اس كا استدلال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ان خطوط سے كيا گيا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كو لكھے، ان ميں قرآنى آيات بھى لكھى جاتى تھيں، جو اس بات كى دليل ہے كہ حكم اغلب اور اكثر پر لگتا ہے.

ليكن اگر تفسير اور قرآن برابر ہو، تو جب مبيح اور ممنوع دونوں جمع ہو جائيں اور ان ميں سے كسى كى راجح اور زيادہ ہونے كى تميز نہ ہو تو ممنوعہ جانب غالب ہو گى اور اسے قرآن كا حكم ديا جائيگا.

اور اگر تفسير زيادہ ہو چاہے تھوڑى ہى تو اسے تفسير كا حكم ہى ديا جائيگا " انتہى.

الشرح الممتع ( 1 / 267 ).

سوم:

سوال ميں جو يہ بيان ہوا ہے كہ جب اسے مسجد ميں داخل ہونے سے منع كر ديا گيا تو بعض مسائل اور دروس حائضہ عورت نہيں سن سكے گى، اس كى تلافى اس طرح ہو سكتى ہے كہ وہ درس ريكارڈ كر ليے جائيں يا پھر اگر ممكن ہو تو اسے مسجد كے باہر سے سن ليا جائے.

مسجد كے ساتھ كچھ ملحقات ايسے ہونے چاہيں جنہيں مسجد كا حكم نہ ديا جائے، مثلا مسجد كے باہر لائبريرى بنا دى جائے، يا پھر حفظ قرآن كى كلاس جہاں پر عذر والى عورتيں بيٹھ كر بغيركسى حرج كے درس سن سكيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب