جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كفار كے تہوار والے دن تجارت كرنا اور دوكانيں كھولنے كا حكم

سوال

كيا عيد اور تہوار كے روز تجارت كرنے اور دوكان كھولنے كى كوئى ممانعت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان شخص كے ليے مسلمانوں كے تہوار ( عيد الفظر اور عيد الاضحى ) كے موقع پر اپنى دوكان اور سپر ماركيٹ كھولنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ايسى اشياء فروخت نہ كرے جو بعض لوگوں كے ليے اللہ كى معصيت اور نافرمانى ميں ممد و معاون ہوں.

دوم:

رہا مسئلہ ان تہواروں كے روز دوكانيں اور سپر ماركيٹ كھولنے كا حكم جو غير مسلموں كے تہوار ہيں مثلا: كرسمس، اور يہود و نصارى يا بدھ مت يا دوسرے ہندو تہوار تو اس ميں بھى دوكانيں كھولنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ان كے ليے كوئى ايسى چيز فروخت نہ كرے جس سے وہ اپنى اس معاصى اور نافرمانى والے كاموں ميں معاونت حاصل كر سكيں، مثلا جھنڈياں اور تصاوير اور تہنيتى كارڈ اور فانوس، اور پھول، اور رنگ برنگے انڈے، اور ہر وہ چيز جو اپنا تہوار منانے ميں استعمال كرتے ہيں.

اور اسى طرح وہ مسلمانوں كے ليے كوئى ايسى چيز فروخت نہ كرے جس كے استعمال سے وہ ان تہواروں ميں كفار كے ساتھ مشابہت ميں ممد و معاون ہوں.

اس ميں اصل اور دليل يہ ہے كہ مسلمان شخص كو معصيت و نافرمانى كرنے اور اس كى معاونت كرنے كى بھى ممانعت ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور تم گناہ و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى سے ڈرتے رہو اس كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى شديد سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور وہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے كوئى ايسى چيز فروخت نہ كرے جو مسلمان ان كے تہوار ميں ان كى مشابہت اختيار كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہے، چاہے وہ كھانا ہو يا لباس وغيرہ؛ كيونكہ اس ميں برائى اور منكر ميں معاونت ہوتى ہے " انتہى.

ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 520 ).

اور وہ كہتے ہيں:

" اور مسلمانوں كا انہيں ( يعنى كفار كو ) ان كے تہواروں كے موقع پر وہ اشياء فروخت كرنا جس سے وہ اپنے تہواروں ميں مدد و معاونت ليتے ہوں چاہے وہ كھانا ہو يا لباس يا خوشبو اور پھول وغيرہ، يا انہيں يہ اشياء بطور ہديہ دينا، يہ سب كچھ انہيں حرام تہوار منانے ميں ايك قسم كى معاونت ميں شمار ہوتا ہے "

اور ابن حبيب مالكى رحمہ اللہ نے ان كا يہ قول نقل كيا ہے كہ:

" كيا آپ ديكھتے نہيں كہ مسلمانوں كے ليے حلال نہيں كہ وہ نصارى كو كوئى بھى ايسى چيز فروخت كريں جو انہيں ان كے تہوار منانے ميں ممد و معاون ہو، نہ تو گوشت، اور نہ ہى سالن، اور نہ ہى لباس، اور نہ ہى انہيں كوئى سوارى عاريتا دى جائيگى، اور نہ ہى ان كے تہوار ميں ان كى كسى بھى قسم كى ممدد و معاونت كى جائيگى؛ كيونكہ يہ سب كچھ ان كے شرك كى تعظيم ميں شامل ہوتا ہے، اور ان كے كفر پر ان كى معاونت ہے، مسلمان حكمرانوں كى ايسے كام كرنے سے روكنا چاہيے. امام مالك وغيرہ كا بھى يہى قول ہے، اس ميں مجھے كسى بھى اختلاف كا علم نہيں "

ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 526 ) الفتاوى الكبرى ( 2 / 489 ) احكام اھل الذمۃ ( 3 / 1250 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:

" اور اگر تو وہ اشياء جو يہ لوگ خريدتے ہيں ان سے حرام كرام كا ارتكاب كرتے ہيں، مثلا صليب، يا شعانين ( عيسائيوں كا تہوار ) يا معموديۃ ( انجيل كے كلمات پڑھ كر بچے پر پانى كے چھنٹے مار كر عسائى بنانا ) يا دھونى كے ليے خوشبو، يا غير اللہ كے ليے ذبح كرنا، يا تصاوير وغيرہ، تو بلاشك و شبہ يہ حرام ہيں، مثلا انہيں شراب بنانے كے ليے جوس فروخت كرنا، يا ان كے ليے گرجا اور چرچ تعمير كرنا.

اور رہا ان اشياء كا مسئلہ جن سے وہ اپنے ان تہواروں ميں كھانے پينے اور لباس ميں معاونت حاصل كرتے ہوں، تو احمد وغيرہ كى اصول تو اس كى كراہت پر دلالت كرتى ہيں، ليكن يہ كراہت تحريمى ہے، جيسا كہ امام مالك كا مسلك ہے، يا كہ كراہت تنزيہى ؟

زيادہ شبہ تو يہى ہے كہ اس كے ہاں اس طرح كى دوسرى اشياء كى طرح يہ بھى كراہت تحريمى ہے، كيونكہ فساق اور شرابى قسم كے افراد كے ليے روٹى اور گوشت وغيرہ فروخت كرنى جائز نہيں جو اس كے ساتھ شراب نوش كرينگے، اور اس ليے بھى كہ يہ اعانت باطل دين كے اظہار كى متقاضى ہے، اور ان كے تہواروں اور اسے ظاہر كرنے ميں لوگوں كا زيادہ جمع ہونا ہے، جو كہ كسى ايك معين شخص كى معاونت سے بھى بڑھ كر ہے "

ديكھيں: الاقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 552 ).

ابن حجر مكى رحمہ اللہ سے درج ذيل مسئلہ دريافت كيا گيا:

جس كافر كے متعلق علم ہو كہ وہ خوشبو اپنے بت كو لگاتا ہے اسے كستورى فروخت كرنے، اور جس كافر كے متعلق يہ علم ہو كہ وہ اسے ذبح كيے بغير كھائيگا جانور فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟

ان كا جواب تھا:

" دونوں صورتوں ميں ہى اسے فروخت كرنا حرام ہے، جيسا كہ ان ( يعنى علماء ) كے قول ميں يہ بات شامل ہے كہ: جس كے متعلق بھى فروخت كرنے والے كو يہ علم ہو جائے كہ خريدار اس چيز كے ساتھ نافرمانى كا ارتكاب كريگا وہ چيز اسے فروخت كرنى حرام ہے، اور بت كو خوشبو لگانا اور ذبح كيے بغير اس جانور كا قتل كرنا جسے ذبح كيا جاتا ہو يہ دونوں ہى نافرمانياں اور عظيم معصيت ہيں، چاہے ان كى طرف بھى نسبت ہو، كيونكہ صحيح بات يہى ہے كہ كفار بھى مسلمانوں كى طرح ہى شريعت اسلاميہ كى فروعات پرعمل پيرا ہونے كے مخاطب ہيں، اس ليے كسى بھى ايسى چيز كو ان كے ليے فروخت كرنا جائز نہيں جو اس عظيم معصيت و نافرمانى ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہو، اور يہاں علم ظن غالب ہے.

واللہ اعلم. انتہى.

ماخوذ از: الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 2 / 270 ).

حاصل يہ ہوا كہ: كفار كے تہواروں ميں مسلمانوں كے ليے اپنى دوكانيں اور سپر ماركيٹ دو شرطوں كے ساتھ كھولنى جائز ہيں:

پہلى شرط:

ان كفار كے ليے كوئى بھى وہ چيز فروخت نہ كى جائے جس سے وہ اپنا تہوار منانے ميں معاونت حاصل كريں، اور ا سے معصيت و نافرمانى ميں استعمال كريں.

دوسرى شرط:

مسلمانوں كو بھى وہ اشياء فروخت نہ كى جائيں جو ان تہواروں ميں كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنے ميں ممد و معاون ہوں.

بلا شك و شبہ اس وقت ان تہواروں كے ليے كچھ مخصوص اور معلوم اشياء پائى جاتى ہے جو ان تہواروں ميں استعمال ہوتى ہيں: مثلا تہنيتى كارڈ، اور تصاوير، اور مجسمے اور صليب، اور بعض درخت، تو ان اشياء كى فروخت جائز نہيں، اور اصل ميں انہيں اپنى دوكان اور سپر ماركيٹ ميں داخل ہى نہيں كرنا چاہيے.

اور اس كے علاوہ باقى وہ اشياء جن كا استعمال ان تہواروں ميں بھى استعمال ہو سكتا ہے، دوكان والے اور سپر ماركيٹ كے مالك كو اس سے بچنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور وہ جس كى حالت سے علم ہو جائے كہ وہ يہ اشياء حرام كام ميں استعمال كريگا، يا وہ اس تہوار كو منانے ميں استعمال كريگا، يا اس كے متعلق اس كا ظن غالب ہو كہ وہ ايسا ہى كريگا مثلا لباس، خوشبو، اور كھانے والى اشياء تو وہ اسے يہ اشياء فروخت نہ كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب