منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

يا محمد كنندہ كردہ لاكٹ پہننا

81998

تاریخ اشاعت : 15-04-2008

مشاہدات : 4839

سوال

لوگوں ميں ايك لاكٹ عام ہوا ہے جس پر " يا محمد " كنندہ كيا ہوا ہے، اس لاكٹ اور ہار كو گردن يا سيارے ميں لٹكانے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہار يا لاكٹ پر " يا محمد " كنندہ كرنا جائز نہيں:

اول:

اس ليے كہ اس صيغہ اور لفظ سے عرف عام ميں مدد طلب كرنا اور پكارنا مراد ليا جاتا ہے، اور يہ معلوم ہے كہ كسى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كو پكارے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور يہ كہ مسجديں صرف اللہ ہى كے ليے خاص ہيں پس اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو نہ پكارو الجن ( 18 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

اور اس سے بڑھ كر گمراہ اور كون ہو گا جو اللہ كے سوا ايسوں كو پكارتا ہے جو قيامت تك اس كى دعا كو قبول نہ كر سكيں، بلكہ ان كے پكارنے سے محض بے خبر ہوں الاحقاف ( 5 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كو فرمايا:

" جب تم مانگو تو صرف اللہ سے مانگ، اور جب تم مدد طلب كرو تو صرف اللہ تعالى ہى سے مدد مانگ "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2516 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

دوم:

بعض جاہل قسم كے لوگ يہ ہار اور لاكٹ پہن كر يا گاڑى ميں لٹكا كر يہ اعتقاد ركھينگے كہ يہ چيز انہيں نفع اور فائدہ دےگى، اور اسے نقصان اور ضرر سے محفوظ ركھےگى، يا اس كے ليے فائدہ لائيگى، اور اس سے تبرك حاصل كر كے اس طرح وہ شرك ميں پڑ جائيگا.

اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ تعويذ اور تميمہ لٹكانا شرك ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3883 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ معلوم ہے كہ شريعت مطہرہ نے ہر وہ طريقہ اور راہ بند كيا ہے جو شرك كى طرف لے جانے كا باعث بن رہا ہو.

پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہم پر بہت سارے حقوق ہيں كہ ہم لاكٹ يا ميڈل وغيرں ميں ان كا صرف نام لٹكا كر ان حقوق سے عہدہ براہ نہيں ہو سكتے.

بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ہم پر حق يہ ہے كہ: ہم آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان لائيں، اور آپ نے جو كچھ بتايا ہے اس كى تديق كريں، اور جس كا حكم ديا ہے اس ميں ان كى اطاعت و فرمانبردارى كريں، اور جن كاموں سے روكا اورمنع كيا ہے ان سےاجتناب كيا جائے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى حكم كو تسليم كيا جائے، اور اسے مانا جائے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كى اتباع و پيروى كى جائے، اور سنت كا دفاع اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا دفاع كيا جائے اور ان تنقيص اور توہين كرنے والوں كا رد كيا جائے، اور انہيں جھٹلانے والوں كو منہ توڑ جواب ديا جائے اللہ تعالى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر كروڑوں رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد