الحمد للہ.
شادى بياہ كے موقع پر عورتوں كى تصوير بنانا برائى اور منكر ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ عمل حرام ہے، چاہے يہ تصوير ويڈيو كے ذريعہ ہو يا پھر كيمرہ وغيرہ كے ساتھ بلكہ ويڈيو كى تصوير تو زيادہ قبيح ہے، اور اس ميں زيادہ گناہ ہوتا ہے.
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے " عورت كو اپنے خاوند كے سامنے دوسرى عورت كے اوصاف بيان كرنے سے روكا ہے گويا كہ خاوند اسے ديكھ رہا ہے، جيسا كہ صحيحين كى حديث ميں بيان ہوا ہے.
اس ليے تصوير ـ اور خاص كر ويڈيو فلم ـ ميں تو كسى بھى قسم كا شك نہيں كرنا چاہيے كہ يہ وصف بيان كرنے كے اعتبار سے بہت زيادہ بليغ ہے؛ كيونكہ وہ حقيقتا اسے ديكھ رہا ہے، اور يہ كوئى خيالى تصوير نہيں.
يہ تو اس حالت ميں ہے جب تصاوير صرف عورتوں كى ہو، ليكن اگر اس ميں مرد و عورت كا اختلاط ہو تو اس ميں تصوير كے علاوہ اور گناہ بھى ہے، اور پھر عورتوں كى عادت ميں شامل ہے كہ جب وہ كسى تقريب وغيرہ پر اكٹھى ہوتى ہيں تو شارٹ اور خوبصورت لباس پہننے ميں ايك دوسرے سے آگے نكلنے كى كوشش كرتى ہيں.
اور اس طرح كى تصاوير بنانا اور اسے نشر كرنا فحاشى و معصيت اور گناہ كى دعوت دينا اور عورت كى اہانت كرنا ہے، اور وہ عورت جو ايسا نہيں كرنا چاہتى ليكن جب اس كى خوبصورت لباس ميں تصوير باہر نكل آئے تو وہ كيا كريگى ؟
اور اللہ سبحانہ و تعالى جسے گمراہى و انحراف كے بعد ہدايت سے نواز دے، اور اس تصوير شادى بياہ كى تقريب كى ويڈيو ميں نشر ہو چكى ہو تو وہ كيا كريگى ؟
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اوپر جو موانع بيان ہوئے ہيں ميں ان ميں ايك اور عظيم مانع كا اضافہ يہ كرتا ہوں كہ:
ہمارے علم ميں يہ آيا ہے كہ: كچھ عورتيں اس تقريب كى تصوير بنانے كے ليے كيمرہ لے كر جاتى ہيں، مجھے يہ معلوم نہيں كہ ان عورتوں كو اس تقريب كى تصوير بنانے كے جواز ميں كونسا سبب ہے، اور كس نے ان كے ليے يہ جائز كر ديا ہے كہ وہ يہ تصوير بنا كر قصدا يا بغير قصد كے لوگوں كے درميان نشر كريں؟!
كيا تصوير بنانے والى عورتيں يہ خيال كرتى ہيں كہ ان كے فعل سے كوئى راضى اور خوش ہوتا ہوگا ؟!
ميرے خيال تو ان كے اس فعل پر كوئى بھى راضى نہيں ہوتا ہو گا، ميرے خيال ميں كوئى شخص بھى راضى نہيں كہ اس كى بيٹى يا اس كى بيوى يا اس كى بہن كى تصوير اتارى جائے تا كہ وہ تصوير ان زيادتى ظلم كرنے والى عورتوں كے ہاتھ ميں جائے، اور وہ جسے چاہے ديں، اور جس كے سامنے جب چاہيں پيش كرتى پھريں !!
كيا تم ميں سے كوئى اس پر راضى ہے كہ اس كى محرم عورت كى تصوير لوگوں ميں ہاتھوں ميں ہو اور اگر وہ قبيح اور بد شكل ہے تو لوگ اس كا مذاق اڑاتے پھريں، اور اگر وہ خوبصورت و جميل ہو تو وہ فتنہ و فساد كا باعث بنے ؟ !
ہميں تو اس سے بھى زيادہ قبيح اور بڑى مصيبت كا علم ہوا ہے كہ: حد سے تجاوز كرنے والے بعض افراد اپنے ساتھ ويڈيو كيمرہ لے كر جاتے ہيں تا كہ وہ اس تقريب كى ويڈيو فلم بنا كر بعد ميں اسے خود بھى ديكھيں، اور دوسرے لوگوں كو بھى دكھائيں، جب بھى انہيں اس تقريب كى ياد آئے تو وہ اس كا مشاہدہ كريں!!
ہميں يہ بھى علم ہوا ہے كہ: كچھ علاقوں ميں تو يہ بعض افراد نوجوان لڑكے ہوتے ہيں جو عورتوں كے اندر مختلط ہوتے ہيں، يا پھر عليحدہ ہوتے ہيں، اور كوئى بھى عقل مند جسے شريعت كے مصادر كا علم ہے اسے اس كے حرام اور برائى ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں اور يہ كہ يہ چيز كافروں كى تقليد اور ان سے مشابہت اور ہلاكت كى طرف لے جانے والى ہے.
ماخوذ از: خطبہ جمع مركزى مسجد عنيزہ القصيم. عنوان رخصتى كى تقريب كى برائياں اور ممنوعہ كام.
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:
" آلہ تصوير " كيمرہ " كے ساتھ تصوير بنانا جو مشاہد ہے، چنانچہ كوئى بھى عقلمند شخص اس كى قباحت ميں شك نہيں كرتا، اور نہ ہى كوئى عقلمند " چہ جائيكہ مومن شخص " اس پر راضى ہوتا ہے كہ اس كى محرم عورتوں ميں سے اس كى ماں يا بيٹى يا بہن يا بيوى وغيرہ كى تصوير بنائى جائے، تا كہ وہ ہر ايك كے ليے سامان عيش ہو، يا پھر ہر فاسق و فاجر كى نظر ميں كھيل بن جائے.
اور اس تقريب كى تصوير سے زيادہ قبيح اس كى ويڈيو فلم بنان ہے؛ كيونكہ يہ تو اس تقريب كى مكمل اور اسى طرح عكاسى كر رہى ہوتى ہے جس طرح ديكھا اور سنا گيا ہے، اور ہر عقل سليم اور دين مستقيم ركھنے والا مومن مسلمان شخص اس كا انكار كرتا ہے، اور جس كے اندر ذرا سا بھى ايمان اور حياء ہے وہ اسے مباح سمجھنے كا خيال بھى نہيں ركھتا.
ديكھيں: فتاوى البلد الحرام صفحہ نمبر ( 439 ).
واللہ اعلم .