بدھ 3 جمادی ثانیہ 1446 - 4 دسمبر 2024
اردو

اگر ولى بےنماز ہو اور پھر آدمى بيوى كو طلاق دے تو كيا طلاق واقع ہو جائيگى

125363

تاریخ اشاعت : 24-12-2009

مشاہدات : 6978

سوال

ميں نے ايك ثيب ( طلاق شدہ يا بيوى ) عورت سے ٹيلى فون پر اس كے بھائى كى موافقت سے شادى كى، ليكن رخصتى كے بعد وہ كہنے لگى كہ ميرا ولى ( اس كا بھائى ) نماز ادا نہيں كرتا تو پھر يہ عقد نكاح فاسد ہوا، اور پھر ميں نے تو اسے پہلے طلاق بھى دے ركھى تھى تو كيا يہ طلاق واقع ہو گئى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نكاح صحيح ہونے كے ليے شرط ہے كہ نكاح ولى يا اس كا وكيل كرے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان يہى ہے:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں اس طرح وارد ہے:

عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

اسے امام بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عورت كا ولى اس كا باپ اور پھر اس كا دادا، پھر عورت كا بيٹا ( اگر اس كا بيٹا ہو ) پھر عورت كا سگا بھائى، اور پھر باپ كى طرف سے بھائى، اور پھر ان كے بيٹے پھر چچا اور پھر چچا كي بيٹے پھر باپ كى جانب سے چچا پھر حكمران ولى ہو"

ديكھيں: المغنى ( 9 / 355 ).

دوم:

وہ تارك نماز جو بالكل نماز ادا نہيں كرتا علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق كافر ہے، اس كى تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 2182 ) اور ( 5208 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اس بنا پر بے نماز شخص نكاح ميں ولى نہيں بن سكتا؛ كيونكہ كافر شخص كو بالاجماع مسلمان عورت پر نكاح ميں ولايت حاصل نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كافر شخص كو مسلمان عورت پر كسى بھى حالت ميں ولايت حاصل نہيں، اس پر علماء كا اجماع ہے جن ميں امام مالك اور امام شافعى اور ابو عبيد اور اصحاب الرائے شامل ہيں.

اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہم نے جس سے بھى علم حاصل كيا ہے ان سب كا اس پر اجماع ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 9 / 377 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب وہ نماز ادا نہيں كرتا تو اس كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى كسى بھى بيٹى كا نكاح كرے كيونكہ اگر وہ ولى بن كر عقد نكاح كريگا تو اس كا وہ نكاح فاسد ہوگا؛ اس ليے كہ مسلمان عورت كے ولى كے ليے بھى مسلمان ہونا شرط ہے " انتہى

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.

سوم:

جب بے نماز اپنى ولايت ميں كسى عورت كا نكاح كرے تو وہ نكاح فاسد ہوگا؛ كيونكہ اس ولى كا موجود ہونا اس كے نہ ہونے كے مترادف ہے، اور جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ بغير ولى كے نكاح صحيح نہيں ہوتا، ليكن احناف اسے صحيح قرار ديتے ہيں.

اور جس نے اس كے فاسد ہونے كا اعتقاد ركھتے ہوئے ايسا نكاح كيا تو وہ زانى ہوگا، ليكن اگر اس نے صحيح ہونے كا اعتقاد ركھتے ہوئے ايسا نكاح كيا ـ اور اكثر لوگوں كا حال يہى ہے جب وہ ايسے نكاح كرتے ہيں جن ميں اختلاف پايا جاتا ہے مثلا ولى كے بغير نكاح، اور ولى كے فاسق ہونے كے ساتھ يا پھر گواہوں كے فاسق ہونے كى صورت ميں كيا گيا نكاح ـ تو وہ زانى شمار نہيں ہوگا، بلكہ اس كے نكاح پر اكثر وہى احكام مرتب ہونگے جو صحيح نكاح پر مرتب ہوتے ہيں، اس ليے مہر لازم ہوگا، اور اولاد بھى باپ كى طرف منسوب ہوگى، اور اگر طلاق دے تو طلاق بھى واقع ہو جائيگى.

كسى كو يہ حق نہيں كہ طلاق ہو جانے كے بعد عقد نكاح كى اصل ميں بحث كرتا پھرے كہ آيا نكاح صحيح تھا يا نہيں يا فاسد تھا، تا كہ وہ طلاق سے چھٹكارا حاصل كر سكے، يہ تو دين كے ساتھ كھلواڑ ہے، كيونكہ وہ بيوى سے استمتاع اور مباشرت يہ سمجھ كر كرتا رہا ہے كہ وہ اس كى بيوى ہے، اور پھر اس نے اسے طلاق بھى تا كہ اس سے اس زوجيت كا حكم ختم ہو جس كے وجود كا وہ اعتقار ركھتا تھا، تو پھر پلٹ كر وہ يہ كيسے كہ سكتا ہے كہ: نكاح صحيح نہ تھا ؟!

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے ايك عورت سے شادى كى جس كا ولى فاسق تھا اور حرام كھاتا اور شراب نوشى كرتا تھا، اور اسى طرح گواہ بھى فاسق تھے اور اس نے اسے تين طلاقيں بھى دے ديں تو كيا اسے اس سے رجوع كرنے كى رخصت ہے يا نہيں ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" جب وہ اسے تين طلاقيں دے تو وہ واقع ہو جائينگى، اور جو شخص طلاق كے بعد نكاح كے طريقہ ميں غور كرنا شروع كرے اور اس سے قبل اس نے نكاح كے طريقہ كو نہ ديكھا، تو وہ شخص اللہ كى حدود سے تجاوز كرنے والا ہے، كيونكہ وہ طلاق سے قبل اور بعد ميں اللہ كى حرام كردہ كو حلال كرنا چاہتا ہے، اور فاسد اور مختلف فيہ نكاح ميں دى گئى طلاق امام مالك اور امام احمد وغيرہ كے مسلك ميں واقع ہو جاتى ہے.

اور جمہور آئمہ كے ہاں فاسق كى ولايت ميں نكاح صحيح ہے, اللہ اعلم " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 101 ).

اور ان سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے عورت كے ولى كے ہوتے ہوئے كسى اجنبى ولى كے ماتحت اس اعتقاد كے ساتھ نكاح كيا كہ اجنبى اس پر حاكم ہے اور اس عورت سے دخول بھى كر ليا اور اولاد بھى ہو گئى اور پھر اس نے اسے تين طلاقيں دے ديں، پھر اس كا كسى اور شخص سے نكاح كرنے سے قبل ہى رجوع كرنے كا ارادہ كرے تو كيا پہلے نكاح كے باطل ہونے كى بنا پر كيونكہ ولى كے بغير تھا اسے رجوع كا حق حاصل ہو گا يا نہيں ؟

اور كيا حد ساقط ہو گى اور مہر واجب ہو گا اور نسب ثابت ہو گا اور وہ زانى شمار ہو گا يا نہيں ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" جب وہ اس نكاح كے صحيح ہونے كا اعتقاد ركھتا ہو تو اس نكاح ميں حد واجب نہيں ہو گى، بلكہ اس كى طرف نسب ثابت كيا جائيگا، اور مہر بھى واجب ہوگا، اور فاسد نكاح كے ساتھ عفت و عصمت ميں فرق نہيں آئيگا، اور مختلف فيہ نكاح ميں دى گئى طلاق واقع ہوگى جب اس كے صحيح ہونے كا اعتقاد ركھا گيا ہو " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 84 ).

اور ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس پر صحيح نكاح كے اكثر احكام مرتب ہونگے، يعنى طلاق واقع ہوگى اور وفات كے بعد عدت لازم ہو گى، اور زندگى ميں اس سے عليحدگى كى عدت شمار كى جائيگى، اور عقد نكاح اور خلوت كے بعد مہر واجب ہوگا، اس ليے صحيح نكاح كى طرح اس ميں بھى جو مہر مقرر ہے واجب ہو گا " انتہى

ديكھيں: القواعد ( 68 ) اور المدونۃ ( 2 / 98 - 120 ) اور تحفۃ المحتاج ( 7 / 232 ).

اس سے يہ معلوم ہوا كہ آپ كى اپنى بيوى كى دى گئى طلاق صحيح اور واقع ہو چكى ہے، اور آپ كے ليے اس كو ساقط كرنے كے ليے حيلہ سازى كرنا جائز نہيں كہ اس كا ولى تارك نماز تھا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب