بدھ 3 جمادی ثانیہ 1446 - 4 دسمبر 2024
اردو

جب كسى عورت سے شادى كر لى جائے تو وہ عورت اس شخص كے باپ پر ابدى حرام ہو جاتى ہے

40251

تاریخ اشاعت : 20-04-2010

مشاہدات : 6598

سوال

كيا فوت شدہ بيٹے كى بيوى جس سے دخول اور رخصتى نہ ہوئى تھى ابدى حرام عورتوں ميں شامل ہوتى ہے، يا كہ وقتى طور پر حرام ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب كوئى شخص كسى عورت سے شادى كر لے تو يہ عورت صرف عقد نكاح سے ہى اس شخص كے والد پر حرام ہو جائيگى، چاہے رخصتى اور دخول نہ بھى ہوا ہو، اور چاہے بيٹا فوت ہو جائے يا اسے طلاق دے دے.

اللہ سبحانہ و تعالى نے محرم عورتوں كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور تمہارے صلبى بيٹوں كى بيوياں النساء ( 23 ).

اور حليلۃ الابن بيٹے كى بيوى كو كہا جاتا ہے، اسے يہى نام ديا گيا ہے كيونكہ وہ اس كے ليے حلال ہوتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب كوئى شخص كسى عورت سے عقد نكاح كر لے تو وہ عورت صرف عقد نكاح كى بنا پر اس شخص كے والد كے ليے حرام ہو جائيگى، كيوكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تمہارے صلبى بيٹوں كى بيوياں النساء ( 23 ).

اور يہ عورت اس كے بيٹے كى بيوى ميں شامل ہوتى ہے.... الحمد للہ اس ميں كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا " اھـ كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 524 ).

اور " احكام القرآن " ميں ابن العربى كہتے ہيں:

" ہر وہ شرمگاہ جو بيٹے كے ليے حلال ہوئى وہ ہميشہ كے ليے والد پر حرام ہو جائيگى " اھـ

اور كتاب الام ميں امام شافعى كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تمہارے صلبى بيٹوں كى بيوياں .

چنانچہ جس عورت سے بھى آدمى نے نكاح كر ليا تو وہ عورت اس شخص كے باپ پر حرام ہو جائيگى، چاہے بيٹے نے اس سے دخول كيا ہو يا دخول نہ كيا ہو.

اور اسى طرح اس شخص والد اور والدہ كى جانب سے سب آباء و اجداد پر حرام ہو جائيگى، كيونكہ ابوہ يعنى باپ ہونا ان سب كو اكٹھا كرتا ہے " اھـ

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر بيٹے نے كسى عورت سے نكاح كيا اور دخول كيے بغير اسے طلاق دے تو تو كيا باپ اس سے شادى كر سكتا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" جب بيٹا كسى عورت سے عقد نكاح كر لے تو وہ عورت اس كے آباء و اجداد پر ابدى حرام ہو جاتى ہے چاہے وہ نسبى ہوں يا رضاعت سے، اور اگرچہ دخول اور خلوت نہ بھى ہوئى ہو اس كى دليل محرم عورتوں كے بارہ ميں اللہ عزوجل كا عمومى فرمان ہے جس ميں ارشاد بارى تعالى ہے:

اور تمہارے صلبى بيٹوں كى بيوياں . اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 209 ).

اور كميٹى سے درج ذيل سوال بھى كيا گيا:

آپ ايسے شخص كے متعلق كيا كہتے ہيں جس نے ايك عورت سے شادى كى اور اسے طلاق دے دى اور اس كى عدت بھى ختم ہو گئى، كيا يہ عورت اس شخص كے نانے يا دادے كے حلال ہو گى اور اگر حرام ہے تو اس كى دليل كيا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" جس عورت سے نسبى يا رضاعاعت كے بيٹے يا پوتے يا نواسے نے نكاح كيا ہو اس عورت سے اس شخص كے باپ يا دادے اور نانے كا نكاح كرنا جائز نہيں.

اس كى دليل يہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور تمہارے سگے اور صلبى بيٹوں كى بيوياں .

اس ليے جب كوئى شخص كسى عورت كو طلاق دے دے يا فوت ہو جائے تو اس كى بيوى سے اس كے دادے يا نانے كے ليے نكاح كرنا حلال نہيں، كيونكہ ماں اور باپ دونوں كى طرف آباء و اجداد اس حكم ميں برابر ہيں اور اس كى دليل مندرجہ بالا آيت كا عموم ہے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 210 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب