جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

كيا ہر دو ركعت تراويح كے بعد كوئى مخصوص ذكر ہے ؟

سوال

كيا ہر دو ركعات تراويح كے بعد كوئى مخصوص اور معين ذكر ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ذكر و اذكار عبادات ميں سے ہيں، اور عبادات ميں اصل ممانعت ہے ليكن اس عبادت كے وجوب يا استحباب كى دليل ملنے پر كى جا سكتى ہے اور كسى عبادت كے ساتھ يا عبادت سے پہلے اور بعد ميں ذكر كرنا جائز نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كے ساتھ راتوں كو قيام كيا، اور صحابہ كرام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں اكٹھے اور عليحدہ عليحدہ بھى قيام كيا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد بھى، اور ان سے يہ ثابت نہيں كہ انہوں نے ہر سلام پھيرنے يا دو سلام يعنى تراويح كى چار ركعات ادا كرنے كے بعد كوئى مخصوص اور معين ذكر كيا ہو، اور علماء كرام كا تراويح كى ركعات كے درميان صحابہ كرام سے اجتماعى ذكر كا نقل نہ كرنا، اور صحابہ كے بعد بھى كسى سے نقل نہ كرنا اس كے غير صحيح ہونے كى دليل ہے.

كيونكہ علماء كرام تو اس طرح كے ظاہرى معاملہ سے بھى خفيف اور كم چيز كو نقل كرتے تھے، اور عبادات امور ميں سب سے بہتر اور اچھا طريقہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى اور صحابہ كرام كى پيروى ہے، عبادات ميں وہى كام كرنا چاہيے جو انہوں نے كيا اور جسے انہوں نے ترك كيا ہميں بھى وہ ترك كرنا ہو گا.

ليكن يہ ہے كہ تراويح كے ركعات كے درميان نمازى كے ليے تلاوت قرآن، يا اللہ عزوجل كا ذكر كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ بھى بغير كسى آيت يا سورۃ اور ذكر كى تخصيص كے ہو، اور اس ميں سب يك زبان ہو كر نہ ذكر نہ كريں، اور نہ ہى امام يا كسى دوسرے شخص كى قيادت ميں، كيونكہ شريعت مطہرہ ميں ايسا كرنا ثابت نہيں، اور عبادات كى كميت اور كيفيت اور اس كے اوقات اور جگہ اور سبب اور اس كے طريقہ ميں اصل توقيف يعنى جس طرح شريعت ميں ثابت ہے اسى طرح كرنا ہو گى.

شيخ محمد العبدرى جو كہ ابن الحاج كے نام سے مشہور ہيں اپنى كتاب " المدخل " ميں لكھتے ہيں:

نماز تراويح كى چار ركعت كے بعد ذكر كرنے كے متعلق فصل:

اور اسے ـ يعنى امام ـ كو چاہيے كہ وہ اس ذكر سے اجتناب كرے جو انہوں نے ہر چار ركعات كے بعد بلند آواز سے ذكر كرنا ايجاد كر ليا ہے، اور يك زبان ہو كر كرتے ہيں؛ كيونكہ يہ سب كچھ بدعت ہے، اور اسى طرح وہ مؤذن كو تراويح كى چار ركعت كے ذكر كے بعد " اللہ تم پر رحم كرے نماز " كے الفاظ كہنے سے بھى منع كرے، كيونكہ يہ بھى نئى ايجاد كردہ بدعت ہے، اور دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كرنا ممنوع ہے.

اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا اور اس كے بعد ان كے خلفاء راشدين اور پھر صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كا طريقہ ہے، اور كسى سلف سے بھى اس كا ذكر نہيں ملتا كہ انہوں نے يہ فعل كيا ہو، لہذا جو انہيں كافى تھا وہ ہميں بھى كافى ہے.

ديكھيں: المدخل ( 2 / 293 - 294 ).

مزيد تفصيل اور فائدہ كے حصول كے ليے آپ سوال نمبر ( 10491 ) اور ( 21902 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات