جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

محض اچھی نیت بھی فائدہ مند ہوگی؟

60219

تاریخ اشاعت : 19-12-2015

مشاہدات : 10445

سوال

کیا محض نیت بھی کسی کو فائدہ دے گی؟ یا اس کیلئے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان کی عبادت اسی وقت قبول ہوتی ہے جب اس میں دو بنیادی شرطیں  پائی جائیں:

1- عبادت صرف اللہ کیلئے خاص ہو، یعنی انسان کی قولی، عملی، ظاہری اور باطنی تمام عبادات رضائے الہی کے حصول کیلئے ہوں۔

2- عبادت کا طریقہ کار  شریعت الہی کے مطابق ہو، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح عبادت کرنے کا طریقہ بتلایا ہے  عین اسی طرح عبادت کی جائے، اور آپ کی مخالفت کا اس میں شائبہ تک نہ ہو، اسی طرح  کوئی ایسی عبادت یا طریقۂِ عبادت ایجاد نہ کیا جائے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

ان دونوں باتوں کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:
( فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً )
ترجمہ: جو بھی اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے وہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کیساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرائے۔[الكهف:110 ]

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
فرمان باری تعالی: " فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ" کا مطلب ہے کہ جو اللہ تعالی سے مل کر اجر و ثواب  لینا چاہتا ہے۔

اور  " فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً " کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے مطابق عمل کرے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع لازمی ہو۔

نیز " وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً " کا مطلب یہ ہے کہ: صرف ایسی عبادات کرے جس کا مقصد صرف حصولِ رضائے الہی ہو، کسی اورکی  رضا مقصود نہ ہو۔
کسی بھی نیک کام کے قبول ہونے کیلئے یہ دو بنیادی رکن ہیں، ایک یہ کہ: صرف اللہ کیلئے ہو، اور دوسرا یہ کہ صرف شریعت محمدی کے مطابق ہو" انتہی
" تفسیر ابن کثیر " ( 4 / 108 )

اسی بنا پر اللہ تعالی نے پہلی شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت میں  فرمایا: ( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ) [یعنی: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں] مطلب یہ ہوا عقیدہ توحید اور اخلاص  کسی بھی کام کے درست ہونے کیلئے شرط ہیں، اور اس کے بعد دوسری شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ )[یعنی: ہمیں سیدھا راستہ دیکھا] مطلب یہ ہوا کہ عبادت اسی وقت درست ہوگی جب صحیح طریقے اور صراطِ مستقیم کے مطابق کی جائے گی، جو کہ اللہ تعالی نے  اپنے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں پنہاں رکھا ہے۔

صحیح حدیث میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ: (جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے) مسلم: (1718) یعنی اس کا عمل قبول نہیں ہوگا، اور اسے مسترد کر دیا جائے گا، چنانچہ اگر کوئی بھی عمل ان دو شرطوں [اخلاص، اتباع شریعت]سے خالی ہوا تو عمل کرنے والے کو کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا، لہذا اجر و ثواب اور رضائے الہی کے متلاشیان  کو اسی انداز سے عبادات بجا لانی چاہیے جیسے اللہ تعالی نے ان کا طریقہ بتلایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو تم میری اتباع کرو، تو اللہ بھی تم سے محبت کریگا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا  ہے۔[آل عمران:31]

اس لیے محض نیت اچھی ہو کافی نہیں ہوگا، نیز اگر عمل شریعت سے متصادم ہو ، اور اللہ تعالی کی عبادت کسی بدعتی طریقے پر کرے  تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بہت سے  اہل بدعت اپنی لا علمی کی بنا پر  قرب الہی کے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں!!

یہی وجہ ہے کہ جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ذکر الہی کیلئے اجتماعی شکل اختیار کیے ہوئے لوگوں کو دیکھا تو  انہیں اس عمل سے روکا تو ان لوگوں نے اپنی اچھی نیت کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ہم اللہ کا ذکر کرنے کیلئے ہی جمع ہوئے ہیں تو آپ نے اس وقت کہا تھا: "بہت سے نیک نیت رکھنے والے نیکی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے" دارمی: (204)
اس لیے نیکی اور اللہ تعالی سے اجرو ثواب حاصل کرنے کیلئے محض اچھی نیت ہی کافی نہیں ہے، بلکہ شریعت کیساتھ مکمل مطابقت، اور بدعت سے مکمل احتراز بہت ہی ضروری ہے۔

البتہ محض اچھی نیت دو جگہوں پر فائدہ دے سکتی ہے:

1- اچھی نیت کی بدولت عادت عبادت بن جاتی ہے ۔
چنانچہ اچھی نیت سے عادت کو عبادت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس پر ثواب بھی ملے گا، مثلاً: کھانا کھاتے ، پیتے ہوئے اللہ کی بندگی کیلئے حصول توانائی کی نیت کرے، شادی کیلئے اپنے آپ اور اپنی اہلیہ کو عفت و پاکدامنی مہیا کرنے کی نیت کرے ، اسی طرح دیگر معاملات میں بھی اچھی نیت کر کے عبادت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

2- کسی نیکی کے کام کیلئے محض عزم مصمم اور پختہ ارادے  سے اجر مل جاتا ہے ۔
مثلاً: کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی نیک اور شرعی کام کرنے کیلئے عزم مصمم اور پختہ ارادہ تو کر لیا جاتا ہے لیکن اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں، تو ایسی صورت میں اجر لازمی ملے ، اس بارے میں کچھ احادیث درج ذیل ہیں:

1. جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مدینہ میں کچھ  لوگ ہیں جو ہر گھاٹی اور وادی  عبور کرنے  میں تمہارے ساتھ تھے، انہیں بیماری نے مدینہ میں روک لیا تھا) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ: (وہ تمہارے ساتھ ہر گھاٹی اور وادی عبور کرنے کے اجر میں شریک ہیں) مسلم: (1911)

2. ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اپنے بستر پر  لیٹتے وقت قیام اللیل کی نیت کرے ، لیکن نیند کے غلبے کی وجہ سے صبح تک نہ اٹھے ، تو اس کیلئے نیت کے مطابق ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور گہری نیند اللہ کی طرف سے اس کیلئے صدقہ ہو جاتی ہے) نسائی: (1787) ابن ماجہ: (1344) اس حدیث کو البانی  نے "صحیح الترغیب" (601) میں اسے صحیح کہا ہے۔

3. سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص سچے دل کیساتھ اللہ تعالی سے شہادت مانگے تو اللہ تعالی اسے شہدا کے درجے پر فائز فرمائے گا، چاہے وہ اپنے بستر پر ہی فوت کیوں نہ ہو) مسلم: (1909)

اس کے علاوہ بھی اس بارے میں متعدد احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ: کوئی بھی شخص  کسی نیکی کے کام کیلئے عزم مصمم اور پختہ ارادہ کرے ، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں تو اللہ تعالی اسے اس کی نیت کا اجر دے دیتا ہے۔

چنانچہ : یہاں ان احادیث میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اچھی نیت والے شخص کو اجر ضرور ملتا ہے۔

مزید کیلئے  سوال نمبر: ( 21519 )  اور (13830 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب