اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

بيوى اسلام سے مرتد ہو گئى

7328

تاریخ اشاعت : 21-10-2008

مشاہدات : 7018

سوال

مجھ سے ايك بھائى نے سوال كيا كہ:
جب اس كى بيوى اسے يہ بتائے كہ اس كے بعد وہ مسلمان نہيں رہنا چاہتى، وہ اللہ تعالى كى موجودگى پر تو ايمان ركھتى ہے، ليكن وہ مسلمان نہيں رہنا چاہتى، اس كا كہنا ہے كہ اگر اس سے وہ جہنم ميں بھى چلى جائے تو اس كے ليے اس كى كچھ اہميت نہيں، اس نے نماز ادا كرنا بھى ترك كردى ہے، اور خود اور اپنى بيٹى كو پردہ بھى نہيں كرواتى بلكہ پردہ اتار ديا ہے( اس كى يہ بيٹى سائل ميں سے نہيں ) اس كا كہنا ہے كہ اب كے بعد وہ دونوں اسلام پر نہيں چليں گى" اور اس نے يہ بھى كہا كہ: وہ منتقل ہونا چاہتى ہے.
مولانا صاحب: ہم جانتے ہيں كہ جب يہ عورت مرتد ہو چكى ہے تو كتنى جلدى ہم تصرف كريں، يہ ہميں علم ہے، تو كيا بھائى كى شادى پر يہ اثر انداز ہو گى؟
اور كيا ان كى شادى چل رہى ہے؟
اور كيا وہ عدت گزارنے والى عورت كے حكم ميں آتى ہے؟
اور كيا بھائى اسے چھوڑ دے، اور كيا وہ اس كے ساتھ گھر ميں رہ سكتا ہے ( اس عورت نے گھر چھوڑنے كا مطالبہ كيا ہے، اور گھر ميں كچھ مجمسے وغيرہ لے آئى ہے جو كہ حرام ہيں ) ؟
اس سے ہو سكتا ہے فتنہ اور فساد پيدا ہو اور اس كى ان كاموں كى بنا پر اس بھائى كا ايمان كمزور پڑ جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ حالت ايسى ہے كہ اس نے ايمان پر كفر كو اختيار كر ليا ہے، اور وہ اسلام ميں باقى نہيں رہنا چاہتى، بلكہ اسلام اور اسلامى شعائر ميں طعن و تشنيع كر رہى ہے، اور اسلامى تعاليم كى مخالفت كر رہى ہے، تو اس حالت ميں وہ مرتدہ اور كافرہ ہوگى اسے اپنے عقد ميں ركھنا جائز نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم كافروں كى عصمتوں كو نہ روكو .

يعنى جب بيوى كافر ہو تو اس كے ليے اسے اپنى عصمت ميں ركھنا جائز نہيں، اس ليے اسے اپنى بيوى كو وعظ و نصيحت كرنى چاہيے، اور اس پر حجت قائم كردينى چاہيے اور پھر اسے چھوڑ دے.

اور اگر وہ كسى ايسے علاقے ميں رہتا ہے جہاں اسلامى حكمرانى اور شرعى عدالتيں ہيں تو وہ اس معاملے كو قاضى كے پاس شرعى عدالت ميں لے جائے تا كہ وہ اس سے توبہ كرنے كا مطالبہ كرے، اگر تو وہ توبہ كر ليتى ہے تو ٹھيك وگرنہ اس ميں اللہ تعالى كا حكم نافذ كيا جائے، اور وہ حكم قتل ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو اپنا دين بدل دے اسے قتل كردو"

اور اگر وہ اس كى طاقت نہيں ركھتا اور اس كے ملك ميں اسلامى حكومت نہيں اور نہ ہى شرعى عدالتيں ہيں، تو ميں يہ نہيں كہتا كہ وہ اسے مكمل طور پر چھوڑ دے، اور اس كے ليے اس كى صريح كفر كرنے كے بعد اس سے معاشرت كرنا جائز نہيں ہے.

ماخذ: الشیخ عبداللہ بن جبرین