ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

كسى عورت سے زنا كے بعد اس كى بيٹى سے شادى كرنے كا حكم

78597

تاریخ اشاعت : 18-10-2009

مشاہدات : 13301

سوال

ميرى تيس برس ہے شيطان كے بہكاوے ميں آ كر ميں نے ايك عورت سے زنا كر ليا، اور اللہ كے فضل و كرم سے ميں سچى توبہ كر چكا ہوں اميد ہے اللہ نے توبہ قبول كر لى ہوگى، اب تك ميں نے شادى نہيں كى، ميرى والدہ نے ميرے ليے ايك لڑكى كا انتخاب كيا ليكن يہ لڑكى اس عورت كى بيٹى ہے جس سے ميں زنا كر چكا ہوں ( يہ علم ميں رہے كہ زنا دو برس قبل ہوا تھا، اور اب وہ لڑكى بيس برس كى ہے ) اس ليے برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريں كہ آيا يہ شادى حرام ہے يا نہيں ؟
برائے مہربانى اس مسئلہ ميں تفصيل كے ساتھ معلومات ديں كہ آيا جائز ہے يا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى توبہ قبول فرمائے اور آپ يہ كوشش كريں كہ يہ توبہ سچى ہو؛ كيونكہ زنا كا جرم اور گناہ بہت عظيم ہے، اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اور پھر شادى شدہ زانى شخص تو رجم كا مستحق ٹھرتا ہے، اور حدود اللہ ميں اس سے بڑھ كر كوئى حد نہيں؛ كيونكہ زنا كا جرم ہى اتنا قبيح اور شنيع ہے كہ وہ اسى كا مستحق ہے.

ہمارى آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ اس لڑكى سے شادى مت كريں، اس ليے نہيں كہ يہ نكاح حرام ہے، بلكہ اس ليے كہ اس نكاح كى بنا پر آپ اس عورت كے اور قريب ہو جائيں گے جس سے آپ زنا كر چكے ہيں، اور اس كے قريب ہونا آپ كو اس قبيح اور شنيع جرم كى ياد دلاتى رہے گى، اور ہو سكتا ہے كہ آپ كو دوبارہ شيطان بہكا دے اور اسے مزين كركے پيش كرے اور آپ دوبارہ اس جرم كا ارتكاب كر بيٹھيں.

كيونكہ فحاشى اور معصيت والى جگہوں سے دور رہنا توبہ كى تكميل ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كى دليل وہ حديث ہے جس ميں اس شخص كا ذكر ملتا ہے جس نے ايك سو قتل كر ليے تھے، اور پھر ايك عالم دين كے پاس آيا تو اس نے اسے وہ بستى اور علاقہ چھوڑنے كا كہا تھا جہاں كے رہنے والے اہل و فساد تھے، اور يہ توبہ كى تكميل ہے.

ليكن اس لڑكى سے نكاح كے جواز كے بارہ عرض ہے كہ اس ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے:

امام شافعى اور امام مالك ـ ايك روايت ميں ـ اسے مباح قرار ديتے ہيں.

اور امام ابو حنيفہ اور امام احمد اور امام مالك ـ دوسرى روايت ميں ـ اس نكاح كو حرام قرار ديتے ہيں، ليكن پہلا قول راجح ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ايسے شخص كے بارہ ميں اختلاف ہے جس نے كسى عورت كے ساتھ زنا كيا كہ آيا اس كے ليے اس عورت كى بيٹى يا ماں كے ساتھ نكاح كرنا حلال ہے يا نہيں، اور اسى طرح اگر اس نے كسى عورت كے ساتھ زنا كيا تو كيا اس عورت كے ساتھ اس كا بيٹا يا اس كا باپ نكاح كر سكتا ہے يا نہيں، اور آيا اس سارے مسئلہ ميں زنا وہ كچھ حرام كر ديگا جو صحيح نكاح ميں يا فاسد نكاح ميں حرام ہو جاتا ہے يا نہيں ؟

امام مالك رحمہ اللہ موطا ميں كہتے ہيں:

" عورت سے زنا كرنے سے زنا كرنے والے شخص پر اس كى بيٹى اور اس كى ماں سے نكاح كرنے كو حرام نہيں كرتا، اور جس نے كسى عورت كى ماں سے زنا كيا اس پر اس كى بيوى حرام نہيں ہوگى، بلكہ اسے قتل كيا جائيگا، اور زنا نكاح حلال كى حرمت ميں سے كچھ بھى حرام نہيں كريگا.

ابن شہاب اور زہرى اور ربعيہ كا بھى يہى قول ہے، اور ليث بن سعد اور شافعى اور ابو ثور اور داود بھى اسى طرف گئے ہيں اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى يہى مروى ہے اس كے متعلق ان كا فرمان ہے:

" حرام حلال كو حرام نہيں كرتا "

اور ابن قاسم نے امام مالك سے موطا ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے خلاف روايت كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" جس كسى نے بھى اپنى ايسى بيوى كى ماں سے نكاح كيا جس كو اس نے چھوڑ ركھا ہو، تو وہ امام مالك كے ہاں اس حكم ميں ہے جس نے اپنى بيوى كى ماں سے نكاح كيا اور اس سے دخول كيا "

اور امام ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب اور ثورى اور اوزاعى كا بھى يہى قول ہے، وہ سب كہتے ہيں: جس نے بيوى كى ماں سے زنا كيا تو اس پر اس كى بيوى حرام ہو گئى.

اور سحنون كہتے ہيں:

" امام مالك كے سب اصحاب ابن قاسم كى اس ميں مخالفت كرتے ہيں اور ان كا بھى كہنا ہے جو موطا ميں ہے.

اور پھر اللہ عزوجل نے مسلمان كے ليے بيوى كى ماں اور بيوى كى بيٹى سے شادى كرنا حرام كى ہے، اور اسى طرح لونڈى ہو تو اس سے وطئ كرنے پر اس لونڈى كى ماں اور بيٹى بھى اس پر حرام ہوگى.

اور اسى طرح جس سے اس كے باپ نے نكاح يا ملك يمين يعنى لونڈى ہونے كى وجہ سے اور اس كے بيٹے نے وطئ كى ہو وہ بھى حرام ہے، تو اس ميں حلال وطئ كے معنى پر دلالت ہے. واللہ المستعان.

فقھاء ـ مسلمانوں كے سب علاقوں كے اہل فتوى ـ اس پر متفق ہيں كہ: زانى پر وہ عورت جس سے زنا كيا تھا استبراء رحم كرنے كے بعد نكاح كرنا حرام نہيں، تو پھر اس كى ماں اور اس كى بيٹى سے نكاح بالاولى جائز ہوا.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

ديكھيں: الاستذكار ( 5 / 463 - 464 ) مختصرا.

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" راجح قول يہى ہے كہ: جس عورت سے زنا كيا گيا ہو اس كى ماں زانى پر حرام نہيں، اور جس عورت سے زنا كيا گيا ہو اس كى بيٹى بھى زانى پر حرام نہيں؛ كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

اور اس كے علاوہ تمہارے ليے حلال كى گئى ہيں النساء ( 24 ).

اور ايك قرات ميں " اور اس كے علاوہ تمہارے ليے حلال كى ہيں .

فاعل كى بنا پر.

يہاں اللہ عزوجل نے يہ ذكر نہيں كيا كہ جس عورت سے زنا كيا گيا ہو اس كى ماں اور اس كى بيٹى محرم عورتوں ميں شامل ہوتى ہے، بلكہ اللہ تعالى نے يہ فرمايا ہے:

اور تمہارى ساس اور تمہارى وہ پرورش كردہ لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں، تمہارى ان بيويوں سے جن كے ساتھ تم دخول كر چكے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہيں كيا تو تم پر كوئى گناہ نہيں النساء ( 23 ).

يہ معلوم ہے كہ جس عورت سے زنا كى گيا ہو وہ قطعى طور پر اس كى عورتوں  ميں شامل نہيں ہوتى؛ كيونكہ اس كى عورتيں اس كى بيوياں ہيں، چنانچہ جب وہ اس كى عورتوں ميں شامل نہيں تو زنا اور سفاح كو صحيح نكاح سے محلق كرنا صحيح نہ ہوا.

اس ليے جب زنا سے توبہ كر چكا ہو تو اس كے ليے اس عورت كى ماں جس سے زنا كيا تھا يا اس كى بيٹى سے شادى كرنا جائز ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 38 - 39 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

يہ مسئلہ اختلافى ہے، اور علماء كرام كا اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن راجح يہى ہے كہ زنا كردہ عورت كى بيٹى سے نكاح كرنا جائز ہے جبكہ وہ لڑكى اس كے پانى سے پيدا نہ ہوئى ہو، ہمارى آپ كو نصيحت يہى ہے كہ آپ اس لڑكى سے شادى مت كريں، اس كے دو سبب ہيں:

احتياط كرتے ہوئے، كيونكہ وہ لڑكى اكثر علماء كے ہاں آپ پر حرام ہے.

اور اس ليے بھى كہ اس سے نكاح آپ كے ليے اس كى ماں سے قرب كا باعث ہوگا اور اس كے ساتھ رابطہ كا باعث بنےگا جس سے آپ نے زنا كيا تھا، اور ہو سكتا ہے آپ نے جس گناہ سے توبہ كر لى ہے دوبارہ اس ميں پڑ جائيں.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب