جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

درس شروع كرنے سے قبل تين سو بار درود پڑھنے كا مطالبہ

82559

تاریخ اشاعت : 16-12-2009

مشاہدات : 7349

سوال

ميں تلاوت كے احكام اور تجويد كے درس ميں شريك ہوتا ہوں، ليكن استاد سبق شروع كرنے سے قبل سب حاضرين كو كہتا خاموشى سے تين سو بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھيں، اس كا كہنا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا روز قيامت نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا قرب حاصل كرنے كا سبب ہے، وہ اس كے متعلق ايك حديث بھى سناتا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے مجھ پر سب سے زيادہ درود پڑھنے والا روز قيامت ميرے سب سے زيادہ قريب ہو گا "
تو كيا اس طرح كے عمل ميں اس كے ساتھ شريك ہونا جائز ہے، اور اگر نہيں تو كيا ميرے ليے خاموشى سے اس كے بدلے كوئى اور ذكر مثلا استغفار كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سبق شروع ہونے سے قبل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر اس معين تعداد ميں درود پڑھنے كا التزام كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ نہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام اور تابعين عظام سے ثابت ہے، اور جو عمل بھى ايسا ہو جس كا ثبوت نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملے اور نہ ہى صحابہ كرام سے تو وہ نئى ايجاد كردہ بدعت ہے جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع كرتے ہوئے فرمايا:

" تم نئے نئے امور ايجاد كرنے سے اجتناب كرو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 42 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2600 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3991 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2549 ) ميں اسے صحيح قرار قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

يہ عمل اس ليے بدعت ہے كہ عبادت كے ليے ضرورى ہے كہ وہ فى ذاتہ مشروع ہو اسى طرح اس كى كيفيتا ور وقت اور مقدار بھى مشروع ہونى چاہيے؛ كيونكہ اللہ كى عبادت تو اسى طرح ہو سكتى ہے جو كتاب اللہ ميں مشروع ہوئى ہو يا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان مبارك سے اس كى مشروعيت ثابت ہو.

بعض اوقات ذكر اور ورد اصل ميں تو مشروع ہوتا ہے ليكن اس كى كيفيت يا كسى جگہ يا وقت كے ساتھ تعيين كرنے يا اس ميں مخصوص عدد داخل كرنے سے وہ بدعات ميں شامل ہو جاتا ہے.

اس كى دليل مسند دارمى كى درج ذيل روايت ہے:

عمرو بن سلمہ بيان كرتے ہيں ہم صبح كى نماز سے قبل عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كے دروازے پر بيٹھ جاتے اور جب وہ باہر نكلتے تو ہم ان كے ساتھ مسجد چلے جاتے، ہم بيٹھے ہوئے تھے كہ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى آئے اور دريافت كيا كيا ابو عبد الرحمن باہر آئے ہيں ؟ تو ہم نے عرض كيا نہيں تو وہ بھى ہمارے ساتھ بيٹھ گئے، اور جب وہ باہر نكلے تو ہم سب اٹھ كر چل ديے تو ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كي اے ابو عبد الرحمن ميں نے ابھى ابھى مسجد ميں ايك كام ديكھا ہے اور مجھے وہ اچھا نہيں لگا، اور الحمد للہ وہ اچھا ہى معلوم ہوتا ہے، ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے دريافت كيا وہ كيا ؟

تو ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے كہنے لگے اگر تم زندہ رہے تو ديكھو گے، وہ بيان كرنے لگے:

ميں نے مسجد ميں لوگوں كو نماز كا انتظار كرتے ہوئے ديكھا كہ وہ حلقے باندھ كر بيٹھے ہيں اور ہر حلقے ميں لوگوں كے ہاتھوں ميں كنكرياں ہيں اور ايك شخص كہتا ہے سو بار تكبير كہو، تو وہ سو بار اللہ اكبر كہتے ہيں، اور وہ كہتا ہے سو بار لا الہ الا اللہ كہو تو وہ سو بار لا الہ الا اللہ كہتے ہيں، وہ كہتا ہے سو بار سبحان اللہ كہو تو وہ سو بار سبحان اللہ كہتے ہيں.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: تو پھر آپ نے انہيں كيا كہا ؟

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا:

ميں نے انہيں كچھ نہيں كہا ميں آپ كى رائے اور حكم كا انتظار كر رہا ہوں.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:

تم نے انہيں يہ حكم كيوں نہ ديا كہ وہ اپنى برائياں شمار كريں اور انہيں يہ ضمانت كيوں نہ دى كہ ان كى نيكياں ضائع نہيں كى جائيگى ؟

پھر وہ چل پڑے اور ہم بھى ان كے ساتھ گئے حتى كہ وہ ان حلقوں ميں سے ايك حلقہ كے پاس آ كر كھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: يہ تم كيا كر رہے ہو ؟

انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن كنكرياں ہيں ہم ان پر اللہ اكبر اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ پڑھ كر گن رہے ہيں.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:

تم اپنى برائيوں كو شمار كرو، ميں تمہارى نيكيوں كا ضامن ہوں وہ كوئى ضائع نہيں ہو گى، اے امت محمد صلى اللہ عليہ وسلم افسوس ہے تم پر تم كتنى جلدى ہلاكت ميں پڑ گئے ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كتنے وافر مقدار ميں تمہارے پاس ہيں، اور ابھى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كپڑے بھى بوسيدہ نہيں ہوئے اور نہ ہى ان كے برتن ٹوٹے ہيں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميرى جان ہے كيا تم ايسى ملت پر ہو جو ملت محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور طريقہ سے زيادہ ہدايت پر ہے يا كہ تم گمراہى كا دروازہ كھولنے والے ہو.

انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن ہمارا ارادہ تو صرف خير و بھلائى كا ہى ہے.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا:

اور كتنے ہى خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والے اسے پا نہيں سكتے.

تو ہر خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والا اسے پا نہيں سكتا ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا ہے كہ:

" كچھ لوگ قرآن مجيد پڑھينگے ليكن وہ ان كے حلقوم سے نيچے نہيں جائيگا "

اور اللہ كى قسم مجھے معلوم نہيں ہو سكتا ہے ان كى اكثريت تم ميں سے ہو يہ كہہ كر ابن مسعود رضى اللہ عنہ وہاں سے چل ديے، عمرو بن سلمہ بيان كرتے ہيں ہم نے ان حلقوں ميں بيٹھنے والے عام افراد كو نھروان كى لڑائى والے دن خارجيوں كے ساتھ ديكھا كہ وہ ہم پر طعن كر رہے تھے "

سنن دارمى حديث نمبر ( 204 ).

آپ ذرا اس عمل كے متعلق صحابى رسول ابو موسى اشعرى اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كا موقف ديكھيں اور غور كريں كہ ان دونوں نے اس كيفيت كا انكار كيا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ذكر ميں اختيار نہ كى اور نہ ہى صحابہ كرام نے اس كيفيت پر عمل كيا، اگرچہ اصل ميں اللہ كا ذكر كرنا مشروع اور قابل تعريف اور مرغوب عمل ہے.

اور پھر اہل علم نے متنبہ كيا ہے كہ عبادت كسى وقت يا جگہ سے مخصوص كرنى يا پھر عبادت كو كسى مخصوص كيفيت ميں متعين كرنا جو شريعت ميں ثابت نہ ہو اسے بدعت اور دين ميں نئے ايجاد كردہ امور كے ساتھ ملحق كر ديتا ہے اور اسے اس صورت ميں اضافى بدعت كا نام ديا جاتا ہے، تو اصل كے اعتبار سے مشروع ہے ليكن صفت كے اعتبار سے بدعت ہو گى.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كا يہ انكار اور انہيں اس كام سے روكنا بدعتيوں اور اختراعات كرنے والوں كا رد اور قطعى حجت كا متقاضى ہے جو ہميشہ يہ كہتے ہيں كہ نماز اور قرآن اور اذكار ميں كيا چيز مانع ہے ؟! ہم تو صرف خير و بھلائى كے ليے اور اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے ايسا كرتے ہيں.

انہيں اس كا جواب يہ ديا جائيگا كہ:

عبادت كے ليے واجب ہے كہ وہ اصل اور كيفيت اور ہيئت ميں مشروع ہو، اور جو چيز شريعت ميں عدد كے ساتھ مقيد ہے اس سے تجاوز كرنا جائز نہيں، اور جو شريعت ميں مطلق ہے اسے كسى بدعتى شخص كے ليے بھى محدود كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ ايسا كرنے سے تو شريعت كا مقابلہ ہو گا.

اس مسئلہ كى تائيد سعيد بن مسيب رحمہ اللہ كے اس قصہ سے بھى ہوتى ہے انہوں نے ايك شخص كو طلوع فجر كے بعد دو ركعت سے زائد نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو اسے ايسا كرنے سے منع كيا تو وہ شخص كہنے لگا:

اے ابو محمد كيا اللہ تعالى مجھے نماز ادا كرنے پر عذاب دے گا ؟

تو انہوں نے جواب ديا: نہيں، ليكن تجھے سنت كى مخالفت كرنے پر عذاب دے گا"

آپ اس جليل القدر تابعى رحمہ اللہ كى فقہ اور سمجھ ديكھيں كيونكہ سنت تو يہى ہے كہ طلوع فجر كے بعد نماز فجر كى سنت مؤكدہ دو ركعت ادا كى جائيں يہى سنت ہے، اس سے زائد نہيں اور پھر فجر كے فرض ادا كيےجائيں.

اور امام مالك رحمہ اللہ سے بھى ايسا ہى واقعہ ملتا ہے ان كے پاس ايك شخص آيا اور كہنے لگا:

اے ابو عبد اللہ ميں احرام كہاں سے باندھوں ؟

تو انہوں نے جواب ديا: ذى الحليفہ سے احرام باندھو جہاں سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے احرام باندھا تھا.

تو شخص كہنے لگا: ميں مسجد نبوى سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كے پاس احرام باندھنا چاہتا ہوں.

امام مالك رحمہ اللہ كہنے لگے: ايسا مت كرنا مجھے خدشہ ہے كہ تم فتنہ ميں نہ پڑ جاؤ.

وہ شخص كہنے لگا: يہ كونسا فتنہ ہے ؟ بلكہ صرف چند ميل ہى ميں زيادہ كر رہا ہوں.

تو امام مالك رحمہ اللہ كہنے لگے:

اس سے بڑا فتنہ اور كيا ہو سكتا ہے كہ تم يہ سمجھ رہے ہو كہ اس فضيلت كى طرف سبقت لے جا رہے ہو جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں پايا اور كوتاہى كى ہے ؟!

ميں نے اللہ كا يہ فرمان سنا ہے:

ان لوگوں كو ڈرتے رہنا چاہيے جو اللہ كے رسول كى مخالفت كرتے ہيں كہ كہيں انہيں فتنہ يا پھر عذاب اليم نہ پہنچ جائے النور ( 63 ).

صحابہ كرام اور تابعين عظام اور آئمہ كى فقاہت و سمجھ تو يہ تھى، ليكن يہ بدعتى لوگ كہتے ہيں كونسا فتنہ بلكہ يہ تو نماز اور ذكر اور چند ميل ہى ہيں جن سے ہم اللہ كا قرب حاصل كر رہے ہيں.

اس ليے كسى بھى عقلمند كو ان لوگوں كى باتوں كے دھوكہ ميں نہيں آنا چاہيے، كيونكہ شيطان نے ان كے ليے اعمال كو مزين كر ركھا ہے، اور وہ اپنے مشائخ اور پيروں اور بزرگوں كى مخالفت كرنا پسند نہيں كرتے اور وہ اپنے بزرگوں كےطريقہ كو نہيں چھوڑنا چاہتے.

سفيان بن عيينہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابليس كو معصيت سے زيادہ بدعت پيارى اور محبوب ہے كيونكہ معصيت و گناہ سے توبہ كى جا سكتى ہے، اور بدعت سے نہيں.

يہ جان لو كہ انسان جو بھى بدعت كرتا ہے اس كے مقابلہ ميں اس طرح كى يا اس سے بہتر كوئى نہ كوئى سنت ضرور ترك كرتا ہے، اس ليے ان ايجاد كردہ اذكار اور دعاؤں كو پڑھنے والے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ اذكار اور دعاؤں سے سب سے بڑے جاہل ہوتے ہيں، ان ميں بہت ہى كم ايسے لوگ ہونگے جنہيں صبح اور شام كى دعائيں ياد ہوں اور وہ صبح اور شام سو بار سبحان اللہ و بحمدہ كہتا ہو، يا

" أصبحنا على فطرة الإسلام وكلمة الإخلاص ودين نبينا محمد صلى الله عليه وسلم وملة أبينا إبراهيم حنيفا وما كان من المشركين "

پڑھتا ہو.

يا پھر " أصبحنا وأصبح الملك لله رب العالمين اللهم إني أسألك خير هذا اليوم فتحه ونصره ونوره وبركته وهداه وأعوذ بك من شر ما فيه وشر ما بعده "

يا وہ " سبحان الله عدد خلقه ، سبحان الله رضا نفسه ، سبحان الله زنة عرشه ، سبحان الله مداد كلماته "

پڑھتا ہو.

اس كے علاوہ دوسرى صبح و شام كى دعائيں جو سنت سے ثابت ہيں وہ پابندى سے پڑھتا ہو.

حاصل يہ ہوا كہ آپ كے ليے ان بدعتى اذكار ميں اس كے ساتھ شريك ہونا جائز نہيں ہے.

شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

تو پھر بدعت كى تعريف يہ ہوئى كہ دين جو نيا طريقہ اختراع كر ليا جائے اور شريعت كا مقابلہ كرے، اس پر چلنے سے اللہ كى عبادت ميں مبالغہ كرنا مقصود ہو، كہ عبادت زيادہ كى جائے تو يہ بدعت كہلاتا ہے...

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:

كيفيت و ہئيت كى تعيين كر نے كا التزام كرنا، مثلا ايك ہى آواز ميں اجتماعى ذكر كرنا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت باسعادت كے دن كو جشن منانا اور اسے عيد ماننا اور اس طرح كے دوسرے امور.

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:

معين عبادات كا معين اوقات ميں التزام كرنا جن كى تعيين شريعت ميں نہ ملتى ہو، مثلا پندرہ شعبان كو نصف شعبان كا روزہ ركھنا، اور اس رات قيام كرنا " انتہى

ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 37 - 38 ).

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا سب عظيم عبادات ميں سے ايك عظيم عبادت والا كام ہے، اور اللہ كے قرب كا باعث ہے، ليكن تلاوت كا ہر سبق شروع كرنے سے قبل اور پھر اس معين تعداد ميں درود پڑھنے كا التزام كرنا ايسا عمل ہے جو نہ تو شريعت ميں وارد ہے، اور نہ ہى صحابہ كرام نے ايسا كيا، تو اس طرح يہ نئى ايجاد كردہ بدعت ہو گى، چاہے اس پر عمل كرنے والے كا مقصد خير ہى ہو، كيونكہ كتنے ہى خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والے خير كو نہيں پا سكتے، جيسا كہ اوپر ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں بيان ہو چكا ہے.

اس ليے اس استاد كو نصيحت كرتے ہوئے اس كے سامنے يہ واضح اور بيان كرنا ضرورى ہے كہ جو وہ عمل كروا رہا ہے اور كر رہا ہے وہ سنت نہيں، بلكہ بدعت ہے، اگر تو استاد بات مان لے تو الحمد للہ، اور اگر وہ تسليم نہيں كرتا اور اس استاد كے علاوہ كسى اور استاد سے تلاوت و تجويد كى تعليم حاصل كرنا ممكن ہو جو بدعتى نہ ہو بلكہ سنت پر عمل كرنے والا ہو تو اس بدعتى استاد كو بطور زجر ترك كرنا ضرورى ہے، تا كہ اس كے پاس پڑھنے والوں ميں بھى يہ بدعت سرايت نہ كر جائے.

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو سنت سے محبت عطا فرمائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے محبت كى توفيق بخشے.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 22457 ) اور (21902 ) اور (20005 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب