الحمد للہ.
اول:
اگر كوئى شخص معاصى و گناہ ميں مبتلا ہو اور پھر وہ توبہ كر لے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كى برائيوں كو نيكيوں ميں تبديل كر ديتا ہے چاہے اس كے گناہ جتنے بھى ہوں، اور جرم كتنا بھى عظيم اور بڑا ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ كے حرام كردہ نفس كو حق كے بغير قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كرتے ہيں، اور جو كوئى ايسا كريگا وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا، اسے قيامت كے دوہرا عذاب ديا جائيگا اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہےگا، سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك كام كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ڈالتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے الفرقان ( 68 - 70 ).
اہم يہ ہے كہ وہ سچى اور پكى اور خالص توبہ كرے تو پھر اس كے سب گناہ بخش ديے جاتے ہيں.
دوم:
اللہ سبحانہ و تعالى كا بندے پر احسان ہے كہ وہ اس كى پردہ پوشى كرتا اور اس كے معاملہ كو منكشف نہيں كرتا، اسى ليے يہ بہت قباحت والى بات ہے كہ جب اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كى پردہ پوشى كر ركھى ہو اور وہ اس پردہ كو فاش كر دے، بلكہ اسے اللہ كے پردہ كے ساتھ پردہ پوشى اختيار كرنى چاہيے، اور پھر نصوص شرعيہ بھى اس كى تاكيد كرتى ہيں اور اس پر ہى ابھارتى ہيں جو كئى ايك مواقع پر بيان ہوئى ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اس گندگى سے اجتناب كرو جس سے اللہ سبحانہ و تعالى نے منع كر ركھا ہے، اور جو كوئى اس ميں پڑ جائے تو اسے اللہ عزوجل كے ستر اور پردہ سے پردہ پوشى حاصل كرنى چاہيے "
اس حديث كو امام بيہقى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 663 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى دنيا ميں جس بندے كى پردہ پوشى كرتا ہے تو روز قيامت بھى اس كى پردہ پوشى كريگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2590 ).
يہ ہے وہ بشارت جو توبہ كرنے والے شخص كو دى گئى ہے جس پر اللہ سبحانہ و تعالى نے دنيا ميں پردہ ڈالا تھا كہ اللہ تعالى آخرت ميں بھى اس كى پردہ پوشى كريگا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى تاكيد ميں حلفا بھى فرمايا ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين پر ميں قسم اٹھاتا ہوں كہ جس كا اسلام ميں حصہ ہو اس كو اللہ عزوجل ايسے نہيں كريگا جس كا اسلام ميں كوئى حصہ نہيں، اسلام ميں حصے تين ہيں: نماز روزہ اور زكاۃ، اور اللہ عزوجل دنيا ميں جس كا ولى اور دوست ہوگا تو روز قيامت اسے كسى اور كا دوست نہيں بنائيگا، اور جو شخص كسى قوم سے محبت كرتا ہے اللہ تعالى اسے ان كے ساتھ كر ديتا ہے، اور چوتھا ايسا ہے كہ اگر ميں اس پر قسم اٹھاؤں تو مجھے اميد ہے كہ ميں گنہگار نہيں ہونگا، اللہ تعالى جس كا دنيا ميں پردہ ركھے تو روز قيامت بھى اس كا پردہ ركھے گا "
مسند احمد حديث نمبر ( 23968 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1387 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميرى سارى امت كو معافى مل سكتى ہے ليكن وہ شخص جو اعلانيہ طور پر معاصى كرے، كہ رات كو كوئى عمل كرے اور صبح كو اللہ اس كا پردہ ركھے تو وہ كہتا پھر اے فلاں ميں نے رات ايسا ايسا كام كيا، رات اللہ تعالى نے اس كا پردہ ركھا تھا اور دن كو وہ اللہ كى پردہ پوشى كو ختم كر رہا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6069 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2990 ).
اس سے يہ معلوم ہوا كہ عورت اپنے منگيتر يا اپنے خاوند كو اپنى ماضى ميں كى گئى كوئى بھى برائى نہيں بتائيگى، اور اگر وہ سوال بھى كرتا ہے تو بھى نہ بتائے، بلكہ وہ توريہ اور ادھر ادھر كى بات كر جائے، يعنى ايسى بات كرے جس سے سننے والا متكلم كى مراد كے خلاف سمجھے، مثلا وہ كہے: ميرا تو كسى سے بھى كوئى تعلق نہ تھا، اس سے اس كا مقصد يہ ہو كہ ميرا ايك يا دو روز قبل كسى سے كوئى تعلق نہ تھا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ پر تعليق لگاتے ہوئے كہتے ہيں:
" ان كے قصہ سے اخذ كيا جا سكتا ہے كہ: اس طرح كے واقعہ ميں پڑنے والے كے ليے مستحب ہے كہ وہ توبہ كر لے اور اپنے آپ كو اللہ كے پردہ ميں ہى رہنے دے، اور كسى كے پاس اپنے اس عمل كو ذكر مت كرے جيسا كہ ابو بكر اور عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے ماعز كو اشارہ بھى كيا تھا.
اور جس كو اس كا علم بھى ہو جائے تو وہ بھى اس پر پردہ ڈالے جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں، اور وہ اسے ذليل و رسوا مت كرے، اور نہ ہى حكمران اور عدالت تك لے جائے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس قصہ ميں فرمايا تھا كہ: اگر تم اسے اپنے كپڑے سے چھپا ليتے تو يہ تمہارے ليے بہتر ہے "
اس سے امام شافعى رحمہ اللہ تعالى بالجزم يہ كہتے ہيں كہ: ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ جو كوئى بھى گناہ كر بيٹھے اور اللہ نے اس كا پردہ ركھ ليا تو وہ اپنے آپ كو پردہ ميں ہى رہنے دے اورا سے چاك مت كرے، انہوں نے ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كے ابو بكر اور عمر رضى اللہ تعالى عنمہا كے ساتھ قصہ سے استدلال كيا ہے.
اور اس ميں يہ بھى ہے كہ:
" جو كوئى برائى كر بيٹھے اور وہ اپنے كيے پر نادم ہو تو وہ جلد توبہ كر لے، اور كسى كو بھى اس كے متعلق مت بتائے اور اللہ كے پردہ كو چاك مت كرے، اور اگر اتفاق سے كسى كو اس كى خبر بھى ہو جائے تو اس كے ليے مستحب ہے كہ وہ برائى كرنے والے كو توبہ كرنے كا حكم دے، اور لوگوں سے اسے چھپائے جيسا كہ ماعز رضى اللہ عنہ كا عمر اور ابو بكر رضى اللہ عنہ كے ساتھ قصہ ميں ہے " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 12 / 124 ).
سوم:
خاوند كو چاہيے كہ وہ دين اور اخلاق والى بيوى اختيار كرے، اور جب اسے دين اور اخلاق كى مالك بيوى حاصل ہو جائے تو اسے اس كے ماضى كے متعلق نہيں كريدنا چاہيے، اور نہ ہى وہ اس سے اس كى معاصى و گناہ كے بارہ ميں دريافت كرے كيونكہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى كے سترپوشى كے خلاف ہے كيونكہ اللہ تعالى ستر پوشى پسند فرماتا ہے، اور اس كے علاوہ يہ شك پيدا كرنے كا بھى باعث بنےگا، اور اس كے خيالات كو پرگندہ كر كے ركھ دےگا، اور اس كى حالت كو خراب كريگا، انسان ان سب اشياء سے غنى ہے، اسے اتنا ہى كافى ہے كہ وہ اپنى بيوى كو اللہ كى اطاعت اور صراط مستقيم پر ديكھے، اور اس كے احكام كو بجالائے.
اور اسى طرح بيوى كو كو بھى چاہيے كہ وہ اپنے خاوند سے اس كے ماضى كے امور كے متعلق دريافت مت كرے، كہ آيا اس نے اس كے علاوہ بھى كسى سے محبت كى تھى يا نہيں، يا وہ كسى اور سے تعلق تو نہيں ركھتا تھا، يا وہ ماضى ميں گناہ تو نہيں كرتا رہا، يہ سب ايسى باتيں جن ميں كوئى خير و بھلائى نہيں بلكہ شر ہى شر ہے، اور يہ شر و برائى كا دروازہ كھولتا ہے جس كى تلافى كرنا ممكن نہيں، اور جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے كہ يہ شريعت كى مراد كے بھى خلاف ہے.
چہارم:
اگر خاوند بيوى كو اپنا ماضى بتانے پر اصرار كرے، يا خاوند كو كوئى بات پہنچے جس كى وہ تحقيق كرنا چاہتا ہو، اور بيوى كو اپنى پردہ پوشى كرنے كے ليے حلف اور قسم كے بغير كوئى چارہ نہ ہو تو اس كے حلف اٹھانا جائز ہے، اور اپنى حلف و قسم ميں توريہ كر لے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے تو وہ يہ كہہ سكتى ہے كہ: اللہ كى قسم ايسى تو كوئى بات نہيں تھى، يا ميں نے ايسا نہيں كيا، اور اس سے وہ مراد يہ لے كہ ميں نے تو مثلا كل ايسا نہيں كيا.
اہل علم نے حلف كے مسئلہ ميں تفصيل بيان كى ہے كہ كس ميں تاويل اور توريہ كرنا جائز ہے، اور كس ميں جائز نہيں، ان كى كلام كا خلاصہ يہ ہے كہ: انسان كو قاضى كے پاس حلف ميں توريہ كرنے كا حق نہيں، صرف اسى صورت ميں جبكہ وہ مظلوم ہو تو قاضى كے پاس بھى حلف ميں توريہ كر سكتا ہے.
ليكن اگر وہ مظلوم ہے تو قاضى كے علاوہ كسى اور كے سامنے توريہ كر سكتا ہے ـ ظالم كے ليے نہيں ـ يا پھر اسے خدشہ ہو كہ اس كى سچائى بيان كرنے ميں اسے يا كسى دوسرے كو نقصان اور ضرر ہوگا، يا پھر توريہ كرنے ميں كوئى مصلحت پائى جاتى ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مسئلۃ:
ان كا كہنا ہے: اور جب وہ حلف اٹھائے اور اپنى قسم ميں تاويل كرے، تو اگر وہ مظلوم ہے تو اسے تاويل كا حق ہے.
اور تاويل كا معنى يہ ہے كہ: وہ اپنى كلام اسے مقصود لے جو ظاہر كے مخالف ہو، مثلا وہ حلف اٹھائے كہ: وہ ميرا بھائى ہے اور اس سے اسلامى بھائى مراد لے يا اس سے مشابہ كوئى اور بات يا پھر چھت اور عمارت اور آسمان كى يا يہ كہے: اللہ كى قسم ميں نے اس سے كچھ نہيں كھايا، اور نہ ہى ميں نے اس سے كچھ ليا ہے، يعنى اس سے مراد لينے اور كھانے كے بعد جو باقى ہے وہ ہو.
يہ اور اس كے مشابہ جو سامع كے ذہن ميں ايسى چيز لائے جو اس كے خلاف ہو، جب وہ اسے قسم اٹھانے كا كہے، تو يہ تاويل ہے كيونكہ يہ ظاہر كے خلاف ہے.
اور تاويل والى قسم اٹھانے والے كى تين حالتيں ہو سكتى ہيں:
پہلى حالت:
حلف اٹھانے والا مظلوم ہو مثلا ظالم شخص اسے كسى چيز پر قسم اٹھوائے اور اگر مظلوم شخص سچ بولے تو اس پر ظلم كريگا، يا كوئى اور ظلم كريگا، يا پھر مسلمان شخص كو اس سے ضرر حاصل ہو تو اس شخص كو تاويل والى قسم اٹھانے كا حق حاصل ہے.
ابو داود رحمہ اللہ نے سويد بن حنظلہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس جانے كا ارادہ ركھتے تھے اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ تھے تو انہيں ان كے دشمن نے پكڑ ليا چنانچہ لوگوں نے پريشان كيا كہ تم قسم اٹھاؤ، لہذا ميں نے حلف اٹھايا كہ يہ ميرا بھائى ہے تو انہوں نے اس كو چھوڑ ديا، چنانچہ ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور آپ كے سامنے يہ قصہ ذكر كيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ان ميں سب سے زيادہ سچے اور حسن سلوك كرنے والے ہو، مسلمان مسلمان كا بھائى ہے "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك روايت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" توريہ ميں جھوٹ سے آزادى ہے "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے، اور صحيح يہ ہے كہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ پر موقوف ہے.
ديكھيں: صحيح الادب المفرد ( 857 ).
يعنى اس توريہ كى آزادى اور اجازت ہے جو سامع كو كچھ متكلم كے خلاف معنى دے.
محمد بن سيرين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
توريہ كى كثرت كى بنا پر ايك عقل مند شخص كے ليے جھوٹ بولنے كو كوئى ضرورت نہيں، عقل مند كو خاص اس ليے كيا ہے كہ وہ تاويل كرنے كى استطاعت ركھتا ہے، اس ليے اسے جھوٹ بولنے كى كوئى ضرورت نہيں.
دوسرى حالت:
حلف اٹھانے والا ظالم ہو، مثلا وہ شخص جسے قاضى اور حاكم اس كے پاس موجود حق پر قسم اٹھانے كا كہے، تو اس كى قسم ظاہر الفاظ پر ہوگى جو قسم اٹھانے والا مراد لے رہا ہے، اور حلف اٹھانے والے كو تاويل كوئى فائدہ نہيں دےگى، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، اس ميں ہمارے علم كے مطابق كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كا بيان ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تيرى قسم وہ ہے جس پر تجھے تيرا ساتھى سچا كہے "
صحيح مسلم اور ابو داود.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قسم وہ ہے جو قسم اٹھوانے والى كى نيت پر ہو "
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" قسم وہ ہے جو اس پر واقع ہو جس نے قسم اٹھوائى ہے "
اور اس ليے كہ اگر تاويل كو جائز كر ديا جائے تو قسم كا معنى ہى باطل ہو جاتا ہے؛ كيونكہ قسم كا مقصد تو يہ ہوتا ہے كہ قسم اٹھانے والے كو جھوٹى قسم كے انجام سے خوفزدہ كيا جائے كہ وہ انكار كرنے سے رك جائے اور باز آ جائے.
اس ليے جب اس كے ليے تاويل جائز قرار دى جائے تو يہ ختم ہو جائيگا، اور تاويل حقوق سے انكار كا وسيلہ بن كر رہ جائيگى، اس ميں ہميں كسى اختلاف كا علم نہيں.
تيسرى حالت:
نہ تو وہ ظالم ہو اور نہ ہى مظلوم:
امام احمد كى ظاہر كلام يہ ہے كہ: اسے تاويل كا حق حاصل ہے، روايت ہے كہ ان كے پاس مھنا وہ اور مروزى اور ايك جماعت ان كے پاس تھى تو ايك شخص مروزى كو تلاش كرتا ہوا آيا ليكن مروزى اس سے كلام نہيں كرنا چاہتا تھا، تو مھنا نے اپنى انگلى اپنى ہتھيلى ميں ركھى اور كہنا لگا: يہاں مروزى نہيں ہے، اور پھر مروزى يہاں كيا كريگا ؟
اس كى مراد يہ تھى كہ وہ اس ہتھيلى ميں نہيں، اور ابو عبد اللہ نے اس كا انكار نہيں كيا.
اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
" ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے سوارى ديں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہم تمہيں اونٹنى كا بچہ ديں گے تو اس نے عرض كيا: ميں اونٹنى كے بچے كا كيا كرونگا ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا اونٹ جوان اونٹنياں ہى جنتى ہيں ؟"
اسے ابو داود نے روايت كيا ہے.
يہ سب تاويل اور توريہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے حق كا نام ديا اور فرمايا:
" ميں حق كے علاوہ كچھ نہيں كہتا " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 9 / 420 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كسى شخص كى غيبت كرنے كے بعد توبہ كرنے اور اچھے اعمال كرنے والے شخص كے بارہ ميں كہتے ہيں:
" دو روايتوں ميں صحيح كے مطابق اگر اس سے سوال كيا جائے تو اس كے ليے اعتراف واجب نہيں، بلكہ وہ توريہ كر لے چاہے قسم كے ساتھ ہى ہو؛ كيونكہ وہ مظلوم ہے اور اس كى توبہ صحيح ہے، اور يہاں صريحا مباح جھوٹ كو جائز قرار دينا محل نظر ہے.
اور توبہ اور احسان كے ساتھ اس كا توريہ كرنا جھوٹ ہے اور اس كى قسم جھوٹى ہے، اور ہمارے اصحاب كا اختيار يہ ہے كہ: اس كے علم ميں نہ لائے؛ بلكہ اس كے ليے اس كے ظلم كے مقابلہ ميں اس كے ليے دعا كرے " انتہى
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 5 / 507 ).
اور حلف ميں تاويل كے مسئلہ كى تفصيل كے ليے الموسوعۃ الفقھيۃ ( 7 / 306 ) كا مطالعہ كريں.
پنجم:
تين مواقع پر جھوٹ بولنے كى رخصت دى گئى ہے جيسا كہ ابو داود اور ترمذى كى روايت كردہ حديث ميں وارد ہے.
اسماء بنت يزيد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين موقعوں كے علاوہ كہيں اور جھوٹ حلال نہيں، اپنى بيوى كو راضى كرنے كے ليے خاوند كى بات چيت، اور جنگ ميں جھوٹ، اور لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1939 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4921 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اہل علم كى ايك جماعت كے ہاں يہ صريح جھوٹ پر محمول ہے، نہ كہ توريہ پر، اور انہوں نے اس كے ساتھ اس كو بھى ملحق كيا ہے جس كى ضرورت پڑ جائے يا كوئى مصلحت ہو تو اس ميں بھى جھوٹ جائز ہے، اور اگر اسے حلف كى ضرورت ہو تو وہ حلف بھى اٹھا لے تو اس پر كوئى گناہ نہيں، ليكن بہتر يہى ہے كہ اس ميں توريہ ہى استعمال كيا جائے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جنگ دھوكہ كا نام ہے "
صحيح حديث ميں تين اشياء ميں جھوٹ بولنا جائز قرار ديا گيا ہے: ان ميں سے ايك جنگ كے موقع پر ہے.
طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جنگ ميں حقيقى جھوٹ كى بجائے توريہ كرنا جائز ہے، ان كى كلام تو يہى ہے، ليكن ظاہر يہى ہوتا ہے كہ حقيقى جھوٹ مباح ہے ليكن توريہ كرنے پر اكتفا كرنا افضل و اولى ہے " واللہ اعلم . انتہى
اور سفارينى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں تو نص وارد ہے، اور جو اس كے معنى ميں ہو اس كو بھى اس پر ہى قياس كيا جائيگا، مثلا ظالم سے كسى دوسرے كا مال چھپانے كے ليے، اور اس كى پردہ پوشى كے ليے معصيت كا انكار كرنا، يا كسى دوسرے كى پردہ پوشى كرے جب تك وہ دوسرا شخص اعلانيہ معصيت نہ كرے.
بلكہ اگر وہ خود اعلانيہ كرے تو اسے پردہ پوشى كرنى چاہيے، ليكن اگر وہ اپنے آپ پر حد لگوانا چاہتا ہو جيسا كہ ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ نے كيا، اس كے باوجود پردہ پوشى بہتر ہے، اور وہ توبہ كر لے كيونكہ اس اور اس كے رب كے درميان ہے.
پھر سفارينى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حاصل يہ ہوا كہ مذہب ميں قابل اعتماد يہى ہے كہ جہاں راجح مصلحت ہو وہاں جھوٹ جائز ہے، جيسا كہ ہم اوپر امام ابن جوزى سے بيان كر چكے ہيں، اور اگر كسى واجب مقصد كى جانب اس كے بغير نہ پہنچا جا سكتا ہو تو ايسا كرنا واجب ہے.
جب جائز ہے تو پھر توريہ استعمال كرنا اولى اور بہتر ہوا " انتہى
ديكھيں: غذاء الالباب ( 1 / 141 ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" چنانچہ مومن كے ليے مشروع يہى ہے كہ اگر وہ سچا بھى ہو تو قسم كم اٹھائے؛ كيونكہ زيادہ قسميں اٹھانے سے ہو سكتا ہے وہ جھوٹ ميں پڑ جائے، اور يہ معلوم ہے كہ جھوٹ حرام ہے، اور اگر جھوٹ قسم كے ساتھ ہو تو اس كى حرمت اور بھى شديد ہو جائيگى.
ليكن اگر جھوٹى قسم كى ضرورت يا راجح مصلحت ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث ميں ثابت ہے.
ام كلثوم بنت عقبہ بن ابى معيط رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے خير كى چغلى كرے اور اچھى بات كہے تو وہ جھوٹا نہيں، وہ كہتى ہيں: ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نہيں سنا كہ جو لوگ كہتے ہيں اس ميں جھوٹ كى اجازت دى ہو صرف تين مواقع پر:
لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے، اور جنگ ميں ہے، اور خاوند كى اپنى بيوى سے بات چيت "
امام مسلم نے اسے صحيح ميں روايت كيا ہے.
اس ليے جب كوئى لوگوں ميں صلح اور اصلاح كرانے كے ليے يہ كہے كہ: اللہ كى قسم آپ كے دوست تو صلح پسند ہيں، اور وہ اكٹھے ہونا اور ايك ہى بات چاہتے ہيں، اور وہ ايسے ايسے چاہتے ہيں، اور پھر دوسروں كے پاس آئے اور انہيں بھى اسى طرح كى بات كہے، اور اس كا مقصد صرف خير اور صلح ہو تو مذكورہ بالا حديث كى بنا پر اس مي كوئى حرج نہيں "
اور اسى طرح اگر كوئى كسى انسان كو ديكھے كہ وہ كسى دوسرے شخص كو قتل كرنا چاہتا ہے، يا پھر اس پر ظلم كرنے لگا ہے تو وہ اسے كہتا ہے: اللہ كى قسم يہ ميرا بھائى ہے تا كہ وہ اسے اس كو ناحق قتل ہونے سے بچائے يا ناحق ظلم اور مار سے بچائے، اسے علم ہو كہ اگر اس نے اسے اپنا بھائى باور كرايا تو وہ احتراما اسے چھوڑ دےگا: اس كے ليے اس طرح كى حالت ميں اپنے بھائى كو ظلم سے بچانا واجب ہے.
مقصد يہ كہ جھوٹى قسم ميں اصل ممانعت اور حرام ہے ليكن اگر اس جھوٹى قسم كے نتيجہ ميں جھوٹ سے بھى كوئى عظيم مصلحت پائى جاتى ہو جائز ہے، جيسا كہ مذكورہ بالا حديث ميں تين مواقع پر بيان ہوا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 1 / 54 ).
واللہ اعلم .