الحمد للہ.
اول:
موسيقى اور اس كے حكم كا بيان سوال نمبر ( 5011 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، وہاں ہم يہ بيان كر چكے ہيں كہ ہر قسم كے گانے بجانے اور موسيقى كے آلات ركھنے اور استعمال كرنے حرام ہيں، اور يہاں ہم وہ كچھ بيان كريں گے جو صرف عورت كے ليے جائز ہے اس كے علاوہ كسى دوسرے كے ليے نہيں.
دوم:
عورت كے ليے مختلف خوشى كے مباح مواقع مثلا عيد اور شادى بياہ وغيرہ كے موقع دف بجا كر اشعار پڑھنے جائز ہيں.
شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اس ـ يعنى دولہا ـ كے ليے جائز ہے كہ وہ نكاح كا اعلان اور اظہار كرنے كے ليے عورتوں كو صرف دف بجانے اور وہ كلام پڑھنے اور گانے كى اجازت دے جس ميں نہ تو جمال و خوبصورتى كا وصف ہو، اور نہ ہى فسق و فجور والى بات..... ـ پھر شيخ رحمہ اللہ نے اس كے دلائل ذكر كيے ہيں.
ديكھيں: آداب الزفاف صفحہ ( 93 ).
شيخ رحمہ اللہ نے جو دلائل ذكر كيے ہيں وہ يہ ہيں:
ربيع بنت معوذ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
ايك روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم آئے اور تيرى طرح ہى ميرے بستر پر بيٹھ گئے، تو ہمارى چھوٹى بچيوں نے دف بجانا شروع كر دى اور بدر كے موقع پر قتل ہونے والے ميرے بزرگوں كا مرثيہ پڑھتے ہوئے ايك بچى كہنے لگى:
اور ہم ميں وہ نبى ہے جو كل كى بات كا علم ركھتا ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" يہ بات نہ كہو، بلكہ اس سے پہلے جو باتيں كہہ رہى تھى وہ كہتى رہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4852 ).
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك انصارى آدمى كى شادى ہوئى اور جب عورت كى رخصتى ہوئى تو نبى صلى اللہ عليہ فرمانے لگے:
اے عائشہ تمہارے پاس كوئى گانے والى ہے، كيونكہ انصار كو گانا پسند ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4765 ).
ابو اسحاق بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عامر بن سعد البجلى كو يہ كہتے ہوئے سنا: ميں اور ثابت بن وديعہ اور قرظہ بن كعب انصارى ايك شادى ميں گئے تو وہاں گايا جا رہا تھا، تو ميں نے ان دونوں كو اس كے متعلق كہا تو وہ كہنے لگے: شادى بياہ ميں گانا اور ميت پر بغير آہ بكاء كيے آنسو بہانے كى اجازت دى گئى ہے "
سنن بيہقى حديث نمبر ( 14469 ).
محمد بن حاطب الجمحى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" حرام اور حلال ميں فرق دف اور آواز ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1008 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3316 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1886 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو آداب الزفاف صفحہ ( 96 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
شادى بياہ كے موقع پر عورتوں كے ليے يہ فعل جائز ہے، اور گانے بجانے والى اشياء ميں سے صرف ان كے ليے دف بجانى جائز ہے، اس كے علاوہ ڈھول وغيرہ كوئى اور چيز بجانى جائز نہيں، اور دف اور ڈھول ميں فرق يہ ہے كہ: ڈھول اور طبل دونوں جانب سے چمڑے كے ساتھ بند ہوتا ہے اور دف صرف ايك جانب سے بند ہوتى ہے، اور دوسرى جانب سے كھلى.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" گانے بجانے كے آلات ڈھول وغيرہ كا ان نظموں اور ترانوں ميں استعمال كرنا اور بجانا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے ايسا نہيں كيا "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء فتوى نمبر ( 3259 ) تاريخ ( 13 / 10 / 1400 هـ ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شادى بياہ كے موقع پرڈھول بجانا جائز نہيں، بلكہ صرف خاص كر دف ہى كافى ہے "
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 185 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" دونوں جانب سے بند كو ڈھول كہا جاتا ہے جو جائز نہيں؛ كيونكہ يہ گانے بجانے كے آلات ميں شامل ہوتا ہے، اور گانے بجانے كے سب آلات حرام ہيں، صرف وہى حلال ہے جس كى حلت پر نص دلالت كرتى ہے يعنى شادى بياہ كے ايام ميں دف بجانا.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 186 ).
سوم:
رہا رقص تو عورت كے ليے نہ تو غير محرم كے سامنے ناچنا اور رقص كرنا جائز ہے، اور نہ ہى محرم كے سامنے، اور نہ ہى عورتوں كے سامنے كيونكہ يہ اس سے فتنہ پيدا ہوتا ہے جو كہ حرام ہے، اس ليے كہ جسم ہلانے اور اسے گھومانے اور مائل كرنا يہ دل كو حرام فتنہ ميں ڈالتا ہے.
اور يہ معروف ہے كہ عورتوں ميں بھى ايك دوسرى كے ساتھ شہوت پيدا ہوتى ہے، اور اگر ايسا نہ بھى ہو تو اس بات كا خدشہ قائم رہتا ہے كہ ان ميں سے كوئى عورت واپس اپنے گھر جا كر رقص كرنے والى كے جسم كے خدوخال اور بناوٹ اور حسن و جمال كو اپنے گھر ميں موجود مردوں كے سامنے بيان كريگى، تو اس طرح وہ راقصہ مردوں كے دل ميں بس جائيگى، اور ايك عظيم شر اور فتنہ كا باعث بنےگا، جس كے شر سے بچنا مشكل ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اس طرح كے عمل سے منع كيا ہے.
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كوئى عورت كسى عورت كے ساتھ مباشرت مت كرے، تو وہ عورت اپنے خاوند كو اس عورت كا وصف بيان كريگى گويا كہ وہ اسے ديكھ رہا ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4839 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شروع شروع ميں ہيجڑوں كو عورت كے پاس جانے كى اجازت دى تھى، ليكن جب آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ديكھا كہ يہ ہيجڑا تو عورت كے جسم كے خدوخال اور وصف بيان كرتے ہيں، اور ان كے پوشيدہ رازوں كو فاش كرتا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے عورت كے پاس جانے سے منع كر ديا.
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
ايك روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميرے گھر آئے تو ميرے پاس ايك ہيجڑا بيٹھا ہوا تھا، تو ميں نے سنا كہ وہ عبد اللہ بن ابى اميہ كو كہہ رہا تھا: اے عبد اللہ اگر كل اللہ تعالى نے تمہارے ليے طائف فتح كر ديا تو ميں تم غيلان كى بيٹى كو ضرور حاصل كرنا، اور پھر اس نے اس اس لڑكى كا وصف اور جسم كے خدوخال بيان كيے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ ہيجڑے تمہارے ( عورتوں كے ) پاس نہ آيا كريں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3980 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4048 ).
پھر عورت كا اپنے جسم ميں ميلان پيدا كرنا اور اسے ٹيڑھا كرنا اس ستر ميں شامل ہوتا ہے جسے وہ اپنے خاوند كے علاوہ كسى اور كے سامنے ظاہر نہيں كر سكتى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اصل ميں رقص كرنا اور ناچنا مكروہ ہے، ليكن اگر يہ يورپى سٹائل اور يا كافر و فاجر عورتوں كى نقل كرتے ہوئے كيا جائے تو يہ حرام ہوگا؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہى ميں سے ہو گا "
اس كے ساتھ يہ بھى كہ اس رقص اور ناچنے سے فتنہ پيدا ہوتا ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے ناچنے والى عورت خوبصورت جوان اور دبلى پتلى ہو تو عورتوں كو فتنہ ميں ڈال دےگى، حتى كہ اگر وہ عورتوں ميں ہو تو عورتوں كى جانب سے ايسے افعال سامنے آئينگے جو اس پر دلالت كرينگے كہ وہ اس كى بنا پر فتنہ ميں پڑ گئى ہيں، اور جو چيز فتنہ كا سبب ہو اس سے منع كيا گيا ہے "
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح سوال نمبر ( 1085 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" عورتوں كا رقص كرنا اور ناچنا قبيح حركت ہے، اس كے جواز كا ہم فتوى نہيں ديتے، كيونكہ ہم تك يہ پہنچا ہے كہ عورتوں ميں اس رقص كے باعث فتنہ پيدا ہو چكا ہے، اور اگر يہ رقص مردوں ميں ہو تو اور بھى زيادہ قبيح حركت ہے، اور يہ مردوں كا عورتوں سے مشابہت اختيار كرنا ہے، اور اس ميں جو كچھ ہے وہ كسى پر مخفى نہيں.
ليكن اگر يہ رقص اور ناچ مرد و عورت ميں مخلوط ہو جيسا كہ بعض بےوقوف قسم كے لوگ كرتے ہيں تو يہ اور بھى زيادہ قبيح اور بڑا گناہ ہے كيونكہ اس ميں مرد و عورت كا اختلاط اور عظيم فتنہ ہے، اور خاص كر جب نكاح اور شادى كا موقع ہو.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 187 ).
چہارم:
رہا يہ معاملہ كہ كونسے اشعار اور كلمات گانے جائز ہيں، تو ايسے كلمات اور اشعار ہوں جو كسى حرام وصف پر مشتمل نہ ہوں، اور نہ ہى شہوت انگيز ہوں، اور نہ ہى ايسے كلمات اور اشعار ہوں جن سے شريعت نے منع كر ركھا ہے، يا بدعتى اذكار پر مشتمل نہ ہوں، اور اس طرح كے دوسرے حرام كلمات بھى نہ ہوں.
اور مباح اور جائز چيز ہى كافى ہے، مثلا اخلاق حسنہ پر ابھارنا، يا علم حاصل كرنا، يا برائى ترك كرنا، وغيرہ.
مستقل فتوى كميٹى كا بيان ہے:
" موجودہ شكل ميں پائے جانے والے گانوں كى حرمت كے متعلق آپ نے جو حكم لگايا ہے اس ميں آپ سچے ہيں، كيونكہ يہ گانے گرى اور ساقط قسم كى كلام پر مشتمل ہوتے ہيں، جن ميں كوئى خير نہيں، بلكہ اس ميں لہو اور جنسى خواہشات كو ابھار ملتا ہے، اور اسے سننے والا شخص شر ميں مبتلا ہو جاتا ہے، اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى رضا و خوشنودى كے عمل كرنے كى توفيق بخشے.
آپ كے ليے جائز ہے كہ آپ ان گانوں كے عوض ميں اسلامى نظميں اور ترانے سن ليں، جو حكمت اور پند و نصائح اور عبرت پر مشتمل ہوں، اور دينى غيرت و حميت كو ابھاريں، اور اسلامى خيالات پيدا كريں، اور شر اور اس كے اسباب سے نفرت دلائيں، تا كہ اسلامى ترانے اور نظميں پڑھنے اور سننے والے كو اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى طرف بلائے، اور اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى اور اس كى حدود سے تجاوز نفرت پيدا كر كے اس كى شريعت اور جھاد فى سبيل اللہ كى پناہ كى طرف لے جائے.
ليكن وہ ان نظموں اور ترانے كى سماعت كو اپنى عادت نہ بنا لے كہ وہ مسلسل اسے ہى سنتا رہے، بلكہ وہ انہيں مختلف مواقع اور وقتا فوقتا سنے جب ضرورت پيش آئے مثلا شادى بياہ كے موقع پر، يا پھر جہاد كے سفر كے موقع وغيرہ پر، اور نفس كو خير و بھلائى كے كاموں پر ابھارنے كے وقت، اور جب نفس كسى شر و برائى پر آمادہ ہو رہا ہو اس وقت اسے اس شر سے نفرت دلانے اور روكنے كے ليے.
ليكن اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز تو يہ ہے كہ وہ قرآن مجيد كى تلاوت كرے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ دعائيں اور اذكار پڑھ لے، كيونكہ نفس كے ليے يہ زيادہ پاكيزہ اور طاہر ہے، اور اس ميں ہى اطمنان قلب اور شرح صدر ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ نے بہتر اور اچھى ترين كلام نازل كى ہے، جو ايسى كتاب ہے كہ آپس ميں ملتى جلتى ہے، بار بار دہرائى ہوئى آيتوں كى ہے، جس سے ان لوگوں كے رونگٹے كھڑے جاتے ہيں جو اپنے رب سے ڈرتے ہيں، پھر ان كى جسم نرم پڑ جاتے ہيں، اور دل اللہ تعالى كے ذكر كى طرف مائل ہو جاتے ہيں، يہ اللہ كى ہدايت ہے جسے چاہے اللہ تعالى ہدايت ديتا ہے، اور جس كو اللہ تعالى گمراہ كر دے اسے كوئى بھى ہدايت دينے والا نہيں الزمر ( 23 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اسطرح ہے:
جو لوگ ايماندار ہيں ان كے دل اللہ تعالى كے ذكر اور ياد سے مطمئن ہوتے ہيں، خبردار اللہ تعالى كے ذكر سے ہى دلوں كو اطمنان حاصل ہوتا ہے جو لوگ ايمان لائے اور اعمال صالحہ كيے ان كے ليے خوشخبرى ہے اور ان بہتر ٹھكانا ہے الرعد ( 28 - 29 ).
صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كى حالت اور عادت تو يہ تھى كہ وہ كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو حفظ كرتے اور اس پر عمل كرتے، اور اس كے ساتھ ساتھ مختلف مواقع مثلا خندق كھودتے وقت اور مسجد بناتے وقت، اور ميدان جہاد كى طرف جاتے ہوئے اسلامى اشعار بھى پڑھا كرتے تھے، ليكن انہوں نے اسے اپنى علامت اورشعار نہيں بنايا تھا، كہ يہى ان كا اہم كام ہو، اور وہ اسى كا خيال كريں، ليكن يہ چيز اس ميں شامل تھى جس سے وہ راحت حاصل كرتے، اور اپنے جذبات ابھارتے تھے.
رہا ڈھول اور طبل اور دوسرے گانے بجانے كے آلات تو ان نظموں اور اشعار ميں ان آلات ميں سے كسى بھى آلہ كا استعمال جائز نہيں، كيونكہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اور نہ ہى صحابہ كرام نے اس پر عمل كيا.
اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى.
فتوى نمبر ( 3259 ) تاريخ ( 13 / 10 / 1400 هـ ).
واللہ اعلم .