"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا مختلف تہواروں ـ يعنى ميلاد اور عاشوراء وغيرہ ـ كے موقع پر خاندان ـ بھائيوں اور چچا ـ كا جمع ہونا اور اكٹھے كھانا تناول كرنا جائز ہے، اور ايسا كرنے والے كا حكم كيا ہے، اور اسى طرح حفظ مكمل كرنے كے بعد اس كى خوشى ميں تقريب منعقد كرنا كيسا ہے ؟
الحمد للہ.
شرعى تہواروں ـ عيد الفطر اور عيد الاضحى ـ اور خوشى كے كے موقع پر رشتہ داروں كا جمع ہونا اور ايك دوسرے سے ملنا بلا شك و شبہ خوشى و سرور كے دواعى و اسباب اور محبت ميں اضافہ كا باعث، اور رشتہ دارى ميں اور صلہ رحمى كى تقويت كا باعث ہے.
ليكن اس طرح كے خاندانى اجتماعات ميں جو بہت سارے غير شرعى امور مثلا مرد و عورت كا اختلاط چاہے وہ چچا اور ماموں زاد اور قريبى رشتہ دار جنہيں كزن كا نام ديا جاتا ہے ہى كيوں نہ ہوں، اور اس طرح كى دوسرى برى عادات جو كتاب و سنت كے مخالف ہوں پيدا ہوتے ہيں وہ نہيں ہونے چاہيے، كتاب و سنت ميں تو آنكھيں نيچى ركھنے اور پردہ كرنے كا حكم ہے، اور بےپردگى اور خلوت اور اجنبى عورت سے مصافحہ كرنا اور فتنہ كى جانب لے جانے والے اسباب كو حرام كيا گيا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اقارب كے ساتھ اس معاملہ ميں تساہل سے منع كيا اور متنبہ كرتے ہوئے فرمايا:
" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو "
تو ايك انصارى شخص نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ ذرا ديور كے متعلق تو بتائيں تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ديور تو موت ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4934 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2172 ).
ليث بن سعد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
الحمو: خاوند كے بھائى اور اسى طرح خاوند كے رشتہ دار مرد كو كہا جاتا ہے، يعنى چچا زاد وغيرہ اسے مسلم نے بھى روايت كيا ہے.
اختلاط كے موضوع كے متعلق سوال نمبر (1200 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
رہا مسئلہ ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم يا عاشوراء كا جشن منانا، يا دوسرے ايام كا تہوار اور اسے لوگوں كے ليے جشن اور موسم بنا لينا، اوپر بيان ہو چكا ہے كہ اسلام ميں صرف دو عيديں ہيں اور وہ عيد الفطر اور عيد الاضحى ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان بھى فرمايا.
اس كے متعلق آپ سوال نمبر ( 5219 ) اور ( 10070 ) اور ( 13810 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں. اور عاشوراء كا جشن منانے كے متعلق معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 4033 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور قرآن مجيد حفظ كرنے كى خوشى ميں فرحت و سرور كا اظہار كرنا اور اس كے خاندان والوں كا جمع ہونے ميں ان شاء اللہ كوئى حرج نہيں، اور يہ بدعتى جشن ميں شامل نہيں ہوتا الا يہ كہ وہ اس دن كو عيد كا تہوار بنا ليں، اور ہر برس منائيں.
اور يہ اس وقت راجح ہو گا جب حفظ كرنے والا چھوٹى عمر كا ہو اور اسے قرآن مجيد ياد ركھنے اور اس پر دھيان دينے پر ابھارنا مقصود ہو تا كہ وہ حفظ ميں قوى ہو اور اسے بھولے نہ.
واللہ اعلم .