جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

بھائی نے نذر مان لی کہ بہنوں سے بات نہیں کرے گا۔

سوال

میری اپنی بہنوں کے ساتھ چپقلش ہو گئی، میں اس وقت غصے میں تھا تو میں نے کہہ دیا: اگر میں نے ان میں سے کسی سے بھی بات کی تو مجھ پر ایک ماہ کے روزے ۔ پھر وقت گزر گیا اور ہمارا جھگڑا ختم ہو گیا تو میں نے ان سے بات کر لی؛ کیونکہ میں ان سے دور نہیں رہ سکتا وہ میری بہنیں ہیں، تو اب کیا مجھے کسی غیر معینہ ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے ؟ اور کیا میں یہ روزے الگ الگ رکھوں گا یا تسلسل کے ساتھ رکھنے ضروری ہیں؟ میں مکہ مکرمہ کا رہائشی ہوں اور مکہ کا موسم گرم ہوتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ذکر کیا گیا ہے تو پھر یہ عبادت پر مبنی منت اور نذر نہیں ہے، بلکہ یہ غصے اور جھگڑے پر مبنی نذر ہے، اس نذر ماننے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے آپ کو بہنوں سے بات کرنے سے روکا جائے، تو خلاصہ یہ ہے کہ اس نذر کا حکم قسم والا ہے، تو اس لیے آپ قسم کا کفارہ دیں گے، اور آپ پر روزے رکھنا لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کا یہ عمل غصے اور جھگڑے کی نذر کہلاتا ہے اور اس کا حکم یہ ہوتا ہے کہ اس پر قسم کا کفارہ دیا جائے گا۔

اس لیے آپ قسم کا کفارہ دیں گے، یعنی دس مساکین کو کھانا کھلائیں، یا انہیں لباس دیں، یا پھر ایک غلام آزاد کریں، یہ قسم کا کفارہ ہے۔ کھانا کھلاتے ہوئے آپ دس مساکین کو دوپہر یا رات کا کھانا کھلا دیں یا پھر ہر مسکین کو نصف صاع [تقریباً سوا کلو] اناج علاقائی اجناس میں سے دے دیں تو کفارہ ادا ہو جائے گا، یا پھر انہیں پہننے کے لیے کپڑے دیں تب بھی کافی ہو گا۔

یہی حکم اس وقت ہو گا جب کوئی شخص کہے: اگر میں فلاں شخص سے بات کروں تو مجھ پر حج لازم ہو ، یا کہے کہ اگر میں نے فلاں سے بات کر لی تو مجھ پر فلاں فلاں کام لازم ہوں ، تو ایسی تمام صورتوں میں قسم کا کفارہ لازم آتا ہے، کیونکہ یہ منت اور نذر جھگڑے اور غصے کی ہے، اس میں مقصود یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو مخصوص کام کرنے سے روکے" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ الله "فتاوى نور على الدرب" (4/1978)