الحمد للہ.
اول:
نماز عید سے پہلے اجتماعی تکبیرات پڑھنے کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ یہ شرعی عمل نہیں ہے، اس بارے میں تفصیلات کیلیے سوال نمبر: (127851 ) کا مطالعہ کریں۔
ابن الحاج رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سنت یہی ہے کہ تکبیرات اتنی بلند آواز سے پڑھے کہ ساتھ والے شخص کو سنائی دے، اس سے زیادہ آواز بلند کرنا یا گلا پھاڑ کر چلانا بدعت ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی ثابت ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے۔۔۔ بیک زبان ہو کر تکبیرات کہنا بھی بدعت ہے؛ کیونکہ شرعی عمل کے مطابق ہر شخص کا اپنے لیے تکبیر کہنا شرعی عمل ہے، لہذا ایک آواز میں اکٹھے تکبیرات مت پڑھیں" انتہی
"المدخل" (2 /285)
دوم:
تاہم اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک شخص اسپیکر میں تکبیرات پڑھے اور لوگ پہلے بیان شدہ صورت میں ایک آواز کے ساتھ تکبیرات نہ پڑھیں بلکہ ہر ایک الگ الگ تکبیرات پڑھے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر تکبیرات کی وجہ سے کوئی اور خرابی پیدا نہ ہو ، نیز لوگوں کو یہ بتلا دیا جائے کہ ہم مؤذن یا کسی اور شخص کو اسپیکر میں تکبیرات پڑھنے کی ذمہ داری لگا دیتے ہیں کہ لوگ اجتماعی طور پر ان کی آواز کے ساتھ تکبیرات نہ پڑھیں تو اس میں میرے مطابق کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ تکبیرات بلند آواز سے پڑھنے کے زمرے میں آئے گا، نیز اس سے دیگر لوگوں کو تکبیرات پڑھنے کی یاد دہانی بھی ہوتی رہے گی۔
ویسے بھی یہ بات معروف ہے کہ اگر کوئی شخص اسپیکر کے بغیر بلند آواز سے تکبیرات پڑھے تو کوئی بھی اسے معیوب نہیں سمجھتا، تو بالکل اسی طرح اسپیکر پر تکبیرات پڑھنے کا حکم ہے، البتہ اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ سب لوگ ایک آواز میں تکبیرات مت پڑھیں کہ وہ اسپیکر میں تکبیر کہے اور سامعین اس کے بعد تکبیر کہیں پھر وہ اگلا لفظ بولے اور سامعین پھر اسے دہرائیں، تو ایسا کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 /987)
سوم:
تکبیرات روک کر لوگوں کو نماز سے پہلے فطرانے کی ادائیگی سے متعلق یاد دہانی کروانے میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے؛ اس طرح سے ان لوگوں کو تنبیہ ہو جائے گی جنہوں نے ابھی تک فطرہ ادا نہیں کیا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے نماز سے قبل فطرانہ ادا کیا تو وہ مقبول ہے، اور جس نے فطرانہ نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے صدقہ ہے)
ابو داود (1609) و ابن ماجہ (1827) اسے البانی نے " صحیح ابو داود " میں حسن قرار دیا ہے۔
لیکن لوگوں کو وعظ و نصیحت کیلیے من گھڑت یا بے بنیاد روایات ذکر کرنا گناہ ہے ، جائز نہیں ہے، صحیح مسلم کے مقدمہ میں صفحہ: ( 7) پر ہے کہ: مغیرہ بن شعبہ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما دونوں صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص میری جانب منسوب کوئی حدیث بیان کرے اور اس پر جھوٹ کے آثار محسوس ہوں تو وہ کذاب لوگوں میں سے ایک ہے)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے یا جھوٹ بولنے کی کوشش کرنے کی مذمت ہے، اور جو شخص کسی روایت کے جھوٹے ہونے کا خدشہ ہونے کے با وجود بیان کر دے تو وہ شخص بھی جھوٹا اور کذاب ہے" انتہی
یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا کسی اور پر جھوٹ بولنے کے برابر نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص مجھ پر جان بوجھ کے جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے) بخاری: (110) مسلم: (3)
مزید کیلیے سوال نمبر: (9464 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.