الحمد للہ.
اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ اپنی طرف سے اور اپنے بیٹوں کی جانب سے چاولوں کے اس تھیلے سے فطرانہ ادا کریں جو آپ کو بطور تحفہ ملا ہے؛ کیونکہ تحفہ جس کو دیا جاتا ہے وہ اس کی ملکیت ہوتا ہے، وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کر سکتا ہے اس کی مرضی اسے فروخت کرے یا کسی کو تحفہ دے دے یا صدقہ کر دے یا کچھ بھی کرے، اس کی تفصیل پہلے سوال نمبر: (70272) میں گزر چکی ہے۔
بلکہ اہل علم رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے کہ جب کسی غریب آدمی کے پاس مالدار لوگوں کی جانب سے اتنا فطرانہ جمع ہو جائے جو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ضرورت سے زائد ہو تو وہ بھی موصول ہونے والے فطرانے سے اپنا فطرانہ ادا کرے گا۔
شیخ ابن بار رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک فقیر آدمی لوگوں کا فطرانہ وصول کرتا ہے، تو کیا وصول شدہ فطرانے میں سے اپنی طرف سے بھی فطرانہ ادا کرے گا؟ کیا یہ اس کے لئے جائز ہے یا نہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں، وہ فطرانہ ادا کرے گا، اگر فطرانہ عید سے پہلے وصول کرے تو اپنی طرف سے فطرانہ ادا کرے گا، لیکن اگر عید کے بعد فطرانہ اس تک پہنچے تو پھر اس پر کچھ نہیں ہے۔ وہ اتنا غریب ہے کہ عید کی رات تک اس کے پاس اپنی طرف سے یا اپنے اہل خانہ کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک صاع فطرانہ ادا کرنے کی سکت نہیں ہے تو اس پر کچھ نہیں ہے، لیکن اگر اس کے پاس استطاعت ہے کہ عید کے دن اور عید کی رات کا اناج رکھنے کے بعد اپنی طرف سے ایک صاع فطرانہ ادا کرے اور اہل خانہ کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک صاع ادا کر سکتا ہے، تو وہ اضافی اناج میں سے اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی جانب سے فطرانہ ادا کرے گا" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " از ابن باز (15/291)
واللہ اعلم