بدھ 26 جمادی اولی 1446 - 27 نومبر 2024
اردو

طلاق میں بیوی کوعلم ہونا یا اس کی موجودگی شرط نہيں

سوال

میری طلاق کوتین برس ہوچکے ہیں ، اورسب معاملات وکیل کے ذریعے مکمل ہوۓ ، میرے سابقہ خاوند نے مناقشہ اوربات چیت سے انکار کردیا اسی لیے ہمارے مابین معاھدہ طے پایا ۔
میں جو یہ جاننا چاہتی ہوں وہ یہ کہ اس نے اب تک مجھے طلاق کا کلمہ نہیں کہا ، اب کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ میرے سامنے طلاق کا لفظ بولے ، میری گزارش ہے کہ آپ اس کی وضاحت کریں کیونکہ مجھے اس سے بہت پریشانی ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

طلاق کے لیے یہ کوئي شرط نہیں کہ خاوند اپنی بیوی کے سامنے طلاق کے الفاظ کہے ، اورنہ ہی یہ شرط ہے کہ بیوی کواس کا علم ہونا چاہیے ، جب بھی آدمی نے طلاق کے الفاظ بولے یا پھر طلاق لکھ دی توطلاق صحیح ہوگی اگرچہ اس کا بیوی کو علم نہ بھی ہو ۔

اگر آپ کے خاوند نے طلاق کے سارے معاملات وکیل کے پاس مکمل کر لیے ہیں تویہ طلاق صحیح ہے اورواقع ہوچکی ہے ۔ آپ اس کی تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 9593 ) اور( 20660 ) کا مراجعہ کریں ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گیا :

ایک آدمی اپنی بیوی سے لمبے عرصے تک غائب رہا اوراسے طلاق دے دی جس کا علم صرف اسے ہی ہے ، اور اگر وہ اپنی بیوی کو نہ بھی بتاۓ توکیا یہ طلاق واقع ہوگی ؟

شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

طلاق واقع ہو جاۓ گی ، اگرچہ بیوی کواس کا نہ بھی بتاۓ توپھر بھی وہ طلاق واقع ہوجاۓ گی ، اگر آدمی طلاق کے الفاظ بولتے ہوۓ یہ کہے : میں نے اپنی بیوی کوطلاق دی ، تواس سے اس کی بیوی کوطلاق ہوجاۓ گی ،چاہے بیوی کو علم ہو یا نہ ہو ۔

اوراس بنا پر فرض کريں اگر اس بیوی کوطلاق کا علم تین حیض گزر جانے کے بعد ہو تواس طرح اس کی عدت ختم ہوچکی ہوگی حالانکہ اس کا علم نہیں تھا ۔

اوراسی طرح اگر کوئي آدمی فوت ہوجاۓ اوراس کی بیوی کوخاوند کی فوتگی کا علم عدت گزرنے کے بعد ہوا تواس پر کوئی عدت نہیں اس لیے کہ عدت کی مدت تو پہلے ہی گزر چکی ہے ۔ ا ھـ فتاوی ابن عثیین رحمہ اللہ تعالی ( 2 / 804 ) ۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب