اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بغیر کسی نقصان کے تعویذ کو کیسے ختم کیا جائے؟

سوال

ایک شخص جو میرے والد کے پاس کام کرتا ہے اس نے میرے ابا جان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ انہیں نظر بد لگی ہوئی ہے، اس شخص نے انہیں ایک پتھر لا کر دیا اور کہا کہ اسے اپنی جیب میں رکھیں ، یہ پتھر آپ کو نظر بد سے بچائے گا، پھر کچھ عرصے کے بعد اس نے ایک کاغذ لا کر دیا جس پر لکھا ہوا ہے: "ا ب ع د" اور کاغذ کے نیچے "اللہ الحامی" لکھا ہوا ہے اس کے ساتھ مزید اور بھی کچھ ایسی عبارتیں ہیں جو پڑھی نہیں جا رہیں ممکن ہے کہ یہ کوئی طلسم اور خرافاتی چیزیں ہوں، ہم اب اس کاغذ کو ختم کرنا چاہتے ہیں؛ کیونکہ یہ شرعی طور پر جائز نہیں ہے، اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اس کو ختم کرنے سے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے ایسا طریقہ آپ ہمیں بتلائیں اور ہمارے لیے مفید نصیحتیں بھی بیان کر دیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نظر کا لگ جانا صحیح ہے، جیسے کہ اس بارے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا ہے، اس سے تحفظ اور بچاؤ شرعی دم اور نبوی اذکار کے ذریعے ممکن ہے، شعبدہ بازوں اور ٹھگوں کے لکھے ہوئے تعویذوں سے اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔

آپ نظر لگ جانے اور اس سے بچاؤ کے متعلق مزید جاننے کے لیے سوال نمبر: (20954) اور (11359) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

نظر بد یا جادو سے بچاؤ کے لیے پتھر ساتھ رکھنا یا تعویذ پہننا وغیرہ بھی ممانعت میں آتا ہے، جیسے کہ عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دس لوگوں کا مجموعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نو افراد سے بیعت لے لی جبکہ ایک سے بیعت نہ لی، تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے نو افراد سے بیعت لے لی اور اس سے نہیں لی، اسے آپ نے چھوڑ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس نے تعویذ پہنا ہوا ہے) تو اس شخص نے فوری ہاتھ ڈال کر تعویذ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تو پھر آپ نے اس سے بیعت لی، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا) اس حدیث کو امام احمد: (16781) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ : (492) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح مسند احمد : (17440) میں ہی عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو شخص تمیمہ لٹکائے اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے، اور جو شخص ودعہ لٹکائے، اللہ تعالی اس کی کوئی چیز باقی نہ چھوڑے۔) اس حدیث کو ارناؤط نے مسند احمد کی تحقیق میں حسن قرار دیا ہے۔

ودعہ: اس کی عربی زبان میں جمع ودع آتی ہے، یہ عربی زبان میں سمندری سیپی کو کہتے ہیں، لوگ ان سیپیوں کو نظر بد سے بچنے کے لیے پہنا کرتے تھے۔

خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کہا جاتا ہے کہ تمیمہ گھونگوں کو کہتے ہیں ان کا نظریہ تھا کہ یہ آفات سے بچاتے ہیں"

بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمائم: تمیمہ کی جمع ہے، یہ ایسے گھونگے ہوتے تھے جن کو عرب اپنے بچوں کے گلوں میں لٹکاتے تھے، ان کا ماننا تھا کہ ان سے نظر بد نہیں لگتی، تو شریعت نے ان کے اس تصور کو باطل قرار دیا۔"
"التعريفات الاعتقادية" ص 121

علمائے کرام کے صحیح ترین قول کے مطابق تعویز حرام ہے، چاہے وہ قرآنی آیت پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو، اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (10543) کا مطالعہ کریں۔

جبکہ ایسا تعویذ جس میں ایسے حروف اور کلمات موجود ہوں جو پڑھے نہ جاتے ہوں تو ان کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور عین ممکن ہے کہ وہ جادو ہو، یا کسی جن سے معاونت طلب کی گئی ہو۔

سوم:

تعویذ اور جادو کی چیز اگر مل جائے تو اس کو ختم کرنے کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے:

اگر جادو میں گرہیں بھی پائی جاتی ہیں تو انہیں کھول دیں، اور پھر اس کے تمام اجزا کو الگ الگ کر دیں، پھر اسے جلا کر یا کسی اور طریقے سے تلف کر دیں؛ اس کی دلیل زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، آپ کہتے ہیں کہ: "ایک یہودی شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تھا، آپ اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن اسی نے آپ پر جادو کر کے گرہیں لگائیں اور انصاریوں کے کنویں میں اسے ڈال دیا، اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کئی دن بیمار رہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ چھ ماہ تک اس جادو کے اثرات آپ پر رہے۔

اس کے بعد دو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عیادت کے لیے آئے ، ان میں سے ایک آپ کے سر کی جانب بیٹھ گیا تو دوسرا قدموں کے پاس۔
ایک فرشتے نے دوسرے سے کہا: تم جانتے ہو کہ ان کی بیماری کا سبب کیا ہے؟
اس نے کہا: فلاں شخص جو آپ کے پاس آیا کرتا تھا اس نے آپ پر جادو کرتے ہوئے گرہیں لگائیں ہیں اور اسے فلاں انصاری کے کنویں میں پھینک دیا ہے، اگر کسی کو بھیج کر ان گرہوں کو منگوا لیں تو کنویں کا پانی زرد ہوا پائیں گے۔
پھر آپ کے پاس سیدنا جبریل آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سورت الفلق اور سورت الناس نازل کیں، اور کہا:

یہودیوں میں سے ایک شخص نے آپ پر جادو کیا ہے، اور جادو بھی فلاں کنویں میں ہے۔
اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو کنویں کا پانی زرد رنگ کا پایا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے گرہیں لگے ہوئے جادو  کو اٹھایا اور آپ کے پاس لے آئے، تو انہیں حکم دیا کہ ایک ایک گرہ کھولتے جائیں اور آیات پڑھتے جائیں، تو جیسے ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ گرہ کھولتے تو آپ کو افاقہ محسوس ہوتا، اس طرح آپ مکمل طور پر شفا یاب ہو گئے"، اس روایت کو البانی نے سلسلہ صحیحہ : (6/615) میں بیان کر کے اس کا حوالہ امام حاکم: (4/460) ، نسائی: (2/172) ، مسند امام احمد: (4/367) اور طبرانی کا بیان کیا ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ دیکھیں گے کہ جادو گر نے کیا کیا ہے؟ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے بالوں میں جادو کیا ہے، یا کنگھے میں بال پھنسا کر جادو کیا ہے، یا کوئی اور طریقہ اپنایا ہے ، تو ایسی صورت میں پتا چل جائے کہ اس نے جادو فلاں جگہ چھپایا ہے، تو اس چیز کو زائل کر دیا جائے اور جلا دیا جائے، اس طرح جادو کا اثر بھی جاتا رہے گا، اور جادو گر کا کوئی بھی مقصد ہو وہ معدوم ہو جائے گا" ختم شد

"مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز" (8/144)

چنانچہ آپ کے والد کے پاس جو کاغذ ہے اس سے خلاصی پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کو پھاڑ دیں اور جلا دیں، ساتھ میں والد صاحب کو ایسے تعویذ رکھنے اور ان میں تاثیر کا نظریہ اپنانے کی وجہ سے توبہ کی نصیحت بھی کریں۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب