سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نظر بد سے بچنے کی کیفیت

11359

تاریخ اشاعت : 23-12-2003

مشاہدات : 50093

سوال

میں نے ان آخری سالوں میں یہ محسوس کیا ہے کہ مجھے نظر بد لگی ہوئی ہے۔ الحمد للہ اللہ تعالی نے مجھے ایسی خوبصورت شکل عطا کی ہے جو کہ نظر کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ تو میں یہ نہیں چاہتی کہ اس کے سبب سے میری زندگی میں اضطراب اور خلل پیدا ہو جائے۔
میں آپ سے یہ کہتی ہوں کہ سب لوگ ان چیزوں کو جو انہیں عجیب لگیں دیکھ کر اللہ تعالی کی حمد وثنا نہیں کرتے اور خاص کر کفار تو بالکل نہیں کرتے تو کیا اس نوجوان لڑکی کےلیے کوئی ایسا طریقہ ہے جس پر چل کر وہ (اسکی ضرورت پیش نہ آئے کہ) اپنا چہرہ چھپائے بغیر اپنے آپ کر نظر بد سے بچا سکے؟
کیا قرآن کے کچھ حصے رکھنے سے آدمی نظر بد لگنے سے بچ سکتا ہے؟ اور کیا مالا اور ہار اور ہاتھ یا آنکھ کی شکل کے بنے ہوئے تعویذ لٹکانے کا کیا حکم ہے؟ میں نے یہ سنا ہے کہ یہ آدمی کی حفاظت کرتے ہیں لیکن یہ حرام ہیں؟
اگر مقارنہ کیا جائے تو اب میری زندگی پہلے سے بہت بہتر ہے جبکہ میں اسلام پر مکمل عمل نہيں کرتی تھی حالانکہ میں مسلمان پیدا ہوئی ہوں۔ تو اسکا معنی یہ تو نہیں کہ میں مسلمان عورت ہوں۔ اور جب مجھے نظر لگی تھی تو میں اپنی روح سے بھی چھپنے لگی اور غیر محفوظ ہوگئی تھی (؟) یا کیا ضروری ہے کہ مجھ پر قرآن پڑھا جائے تاکہ میں اس سے خلاصی حاصل کروں۔ اور میں کس طرح اپنی حفاظت کروں تاکہ مجھے دوبارہ نظر نہ لگ سکے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپکو یہ علم ہونا چاہئے کہ پردہ واجب ہے اور کسی کےلئے یہ (جائز) نہیں کہ وہ شریعت اسلامیہ میں جسے اس کا دل چاہے اسے اختیار کرے اور جسے دل نہ پسند کرے اسے چھوڑ دے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

"اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" البقرۃ 208

ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اسلام کے سب کنڈوں کور احکام کو پکڑیں اور اسکے سب اوامر پر عمل اور سب نواہی سے رک جائیں۔ تفسیر ابن کثیر 1/522

اور مومن عورتیں کو اپنی زینت غیر محرم کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ہے-

فرمان باری تعالی ہے۔

"اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے خسروں کے یا اپنے لڑکوں یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردہ کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ انکی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے۔ اے مسلمانوں تو سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کروتاکہ تم نجات پاؤ" النور/31

تو اللہ تعالی کے حکم کو ماننے اور پردہ کرنے کی بنا پر اللہ تعالی کے حکم سے دنیا میں نظر لگنے سے حفاظت رہے گی اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے حفاظت ہوگی۔

اور رہا یہ معاملہ کہ قرآن کے اجزاء اور معین شکلیں لٹکانا تو اسکے بارہ میں یہ ہے کہ۔

امام احمد نے اپنی مسند میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا وہ فرماتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جس نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالی اس کی مکمل نہ کرے اور جس نے گھونگا لٹکایا تو اسے اللہ تعالی آرام نہ دے"

اور روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے نو کی بیعت لے لی اور ایک سے رک گئے اور بیعت نہ لی تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نو سے آپ نے بیعت کرلی اور اس کو چھوڑ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر تعویذ ہے تو اس نے ہاتھ ڈال کر اسے کاٹ ڈالا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت لے لی اور فرمایا جس نے تعویذ لٹکایا تو اس نے شرک کیا۔ فتاوی عین والحسد سے اقتباس ص277

اور رہا نظر اور حسد کا علاج تو بلاشک انسان جتنا اللہ تعالی کے قریب ہوگا اور اسکا ذکر ہمیشگی سے اور قرآن مجید کی تلاوت کرے گا اتنا ہی وہ آنکھ لگنے اور دوسری آفات اور شیطان اور انسانوں کی تکلیف دور ہوگا۔ اور ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان کی حفاظت کی دعا کیا کرتے تھے۔ اور سب سے بڑی جس کے ساتھ مسلمان پناہ لے سکتا ہے وہ کتاب اللہ کی قرات ہے اور اس میں سب سے اہم یہ ہیں۔

معوذتان (سورۃ الفلق اور الناس) اور سورۃ الفاتحہ اور آیۃ الکرسی۔

اور تعویذ (لٹکانے والا نہیں پڑھنے کےلئے) جو کہ صحیح اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس میں سے۔

(اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر خلق) (میں اللہ تعالی کے مکمل کلمات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی) اسے مسلم (الذکر والدعاء/ 4881) نےروایت کیا ہے۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین کو دم کرنے کے لئے یہ دعا کرتے اور یہ کہتے تھے کہ تمہارا باپ اسکے ساتھ اسماعیل اور اسحاق کو دم کرتے تھے۔ (اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من کل شیطان وھامۃ ومن کل عین لامۃ) (میں اللہ تعالی کے مکمل کلمات کے ساتھ ہو شیطان اور زہریلی چیز جوکہ مار دے اور ہو حسد اور تکلیف دینے والی آنکھ سے پناہ چاہتا ہوں)

اسے بخاری نے (احادیث الانبیاء/ 3120) روایت کیا ہے۔

اور لامہ کا معنی: خطابی کا قول ہے کہ۔ اس سے مراد ہر وہ ایذا اور آفت ہے جو انسان کو جنوں میں ڈال دے۔

اور ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کچھ تکلیف محسوس کررہے ہیں تو انہوں نے فرمایا جی ہاں تو جبریل نے کہا۔ (بسم اللہ ارقیک من کل شئ یؤذیک ومن شک کل نفس او عین حاسد اللہ یشفیک بسم اللہ ارقیک)

(میں اللہ کے نام سے تجھے ہر اس چیز سے دم کرتا ہوں جو کہ تکلیف دینے والی ہے اور ہر نفس کے شر سے یا ہر حاسد آنکھ سے اللہ آپ کو شفا دے میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں)

اسے مسلم نے (الاسلام/4056) میں روایت کیا ہے۔

اور اس میں کوئی شک نہیں اگر انسان صبح اور شام اور سونے وغیرہ کے اذکار میں پابندی کرے تو اس کا انسان کو نظر بد کی حفاظت میں بہت بڑا اثر ہے اور یہ ان شاء اللہ اسکے لئے ڈھال کا کام دے گا تو اس کی پابندی ضروری ہے اور علاج میں سب سے اہم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر بد سے دم کرنے کی رخصت اور اسکا حکم دیا ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا یا پھر یہ حکم عام دیا کہ نظر بد سے دم کروایا جائے۔ اسے بخاری نے (الطب/ 5297) روایت کیا ہے-

اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جس کی نظر لگی ہوتی اسے حکم دیا جاتا وہ وضوء کرے اور پھر اس پانی سے جسے نظرلگی ہوتی وہ غسل کرتا۔

اسے ابو داوود نے (الطب/ 3382) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح سنن ابو داوود میں کہا کہ یہ صحیح الاسناد ہے دیکھیں حدث نمبر (3296)۔

تو یہ بعض اذکار اور علاج ہیں جو کہ ان شاء اللہ تعالی کے حکم سے نظر اور حسد سے بچائیں گے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ واللہ اعلم۔

اور اللہ تعالی زیادہ علم والا ہے۔

ابن قیم کی کتاب زاد المعاد کا مراجعہ کریں 4/162

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد