منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

جن اور انسان كا آپس ميں نكاح كے متعلق تفصيلى بيان

111301

تاریخ اشاعت : 11-12-2011

مشاہدات : 17993

سوال

كيا جن اور انسان كا آپس ميں نكاح صحيح ہے، اور جيسا كہ ہم سنتے ہيں كہ يہ صحيح ہے تو يہ كيسے ہو سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى نے ہم پر احسان كيا ہے كہ ہمارى ہى جنس سے عورت كو پيدا كيا، تو يہ بھى بشر اور انسان ہى بنائى تا كہ مرد اس كو حاصل كر كے سكون حاصل كرے، اور ان دونوں كى آپس ميں محبت و مؤدت اور الفت و رحمت پيدا ہو، اور زمين ذريت آدم سے آباد ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى نے تمہارے ليے تم ميں سے ہى تمہارى بيوياں پيدا كيں، اور تمہارى بيويوں سے تمہارے ليے تمہارے بيٹے اور پوتے پيدا كيے النحل ( 72 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و راحت پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى، يقيناً غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ تعالى: اللہ تعالى نے تمہارے ليے تم ميں سے ہى تمہارى بيوياں پيدا كيں، اور تمہارى بيويوں سے تمہارے ليے تمہارے بيٹے اور پوتے پيدا كيے

اللہ عزوجل نے اس آيت ميں بيان كيا ہے كہ اس نے بنو آدم پر بہت بڑا احسان يہ كيا كہ اس كى جنس ميں سے ہى اس كى بيوي بنائى، جو ان جيسى شكل اور جنس ركھتى ہے، اور اگر وہ كسى دوسرى قسم سے بيوى بنا ديتا تو پھر ان ميں محبت و مودت اور ہمدردى نہ ہوتى، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى كى يہ رحمت ہے كہ اس نے اولاد آدم سے ہى مرد و عورت بنائے، اور عورتوں كو مردوں كى بيوياں بنايا، يہ سب سے بڑى نعمت اور احسان ہے، اسى طرح يہ اس كى نشانى بھى ہے جو اس پر دلالت كرتى ہے كہ وہ اللہ وحدہ ہى عبادت كا مستحق ہے كوئى اور نہيں.

اور پھر اس نعمت اور احسان كو اللہ سبحانہ و تعالى نے دوسرى جگہ بڑى وضاحت كے ساتھ بيان كرتے ہوئے اسے اپنى نشانيوں ميں بيان كرتے ہوئے فرمايا:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و راحت پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى، يقيناً غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں

اور فرمان بارى تعالى ہے:

كيا انسان يہ گمان كرتا ہے كہ اسے بيكار چھوڑ ديا جائےگا، كيا وہ ايك نطفہ نہ تھا جو ٹپكايا گيا تھا؟ پھر وہ لہو كا لوتھڑا ہو گيا پھر اللہ نے اسے پيدا كيا اور درست بنايان پھر اس سے جوڑے يعنى نر و مادہ بنائے القيامۃ ( 36 - 39 ).

اور فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ وہ ہے جس نے تمہين ايك جان سے پيدا كيا، اور اس سے اس كى بيوى بنائى تا كہ وہ اس كى طرف آرام پا سكے .

ديكھيں: اضواء البيان ( 2 / 412 ).

رہا مسئلہ كہ جن اور انسان كا آپس ميں ايك دوسرے سے شادى كرنا: تو اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے اور اس ميں علماء كے تين اقوال ہيں:

پہلى قول:

امام احمد رحمہ اللہ كے قول كے مطابق يہ حرام ہے.

دوسرا قول:

مكروہ ہے، امام مالك رحمہ اللہ نے اسے مكروہ كہا ہے، اور اسى طرح حكم بن عتيبہ، اور قتادہ اور حسن، عقبہ الاصم، حجاج بن ارطاۃ اور اسحاق بن راھويہ نے بھى مكروہ كہا ہے، اور ان ميں سے بعض كے ہاں كراہت تحريمى ہے.

اور اكثر اہل علم كا قول يہى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جنوں كى شادى اكثر علماء نے مكروہ قرار دى ہے "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 19 / 40 ).

تيسرا قول:

بعض شافعى حضرات كے ہاں مباح ہے.

شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بنو آدم اور جنوں كے مابين شادى كے متعلق علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اہل علم كى ايك جماعت اسے ممنوع قرار ديتى ہے، اور بعض اہل علم اسے مباح كہتے ہيں.

مناوى رحمہ اللہ " جامع الصغير كى شرح " ميں كہتے ہيں:

احناف كى كتاب فتاوى سراجيہ ميں ہے: جنوں اور انسانوں اور پانى كے انسان كا ايك دوسرے كے ساتھ شادى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ ان كى جنس مختلف ہے.

اور شافعيہ كے فتاوى البارزى ميں درج ہے كہ:

ان دونوں كے مابين نكاح جائز نہيں، اور ابن عماد اس كے جواز كو راجح قرار ديتے ہيں.

اور المارودى كا كہنا ہے:

يہ تو عقلى طور پر بھى صحيح نہيں مستنكر ہے؛ كيونكہ دونوں جنسيں ہى مختلف ہيں، اور طبعى طور پر بھى ان ميں اختلاف پايا جاتا ہے؛ كيونكہ آدمى تو جسمانى ہے، اور جن روحانى ہے، اور آدم بجتى ہوئى مٹى سے پيدا ہوا ہے، اور جن آگ كے شعلے سے، اور اس فرق كے ہوتے ہوئے دونوں كا امتزاج صحيح نہيں، اور اس اخلاف كى موجودگى ميں نسل بھى نہيں ہو سكتى " اھـ

اور ابن عربى مالكى كا كہنا ہے:

" ان كا عقلى طور پر نكاح جائز ہے، اور اگر اس ميں نقل يعنى نص صحيح ہو تو پھر تو بہت اچھا اور بہتر ہے "

اس كو مقيد كرنے والے كا كہنا ہے:

ميرے علم كے مطابق تو كتاب اللہ اور سنت نبويہ ميں كوئى ايسى نص نہيں ملتى جو انسان اور جن كے مابين نكاح كے جواز پر دلالت كرتى ہو، بلكہ آيات كے ظاہر سے جو لازم آتا ہے وہ يہى ہے كہ يہ جائز نہيں، چنانچہ اس آيت كريمہ ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان:

اور اللہ تعالى نے تمہارے ليے تم ميں سے ہى بيوياں بنائيں النحل ( 72 ).

اللہ تعالى نے بنى آدم پر بطور احسان ذكر كيا ہے كہ ان كى بيوياں ان كى جنس ميں سے ہيں:

اس سے يہ مفہوم حاصل ہوتا ہے كہ اللہ تعالى نے ان كى جنس مخالف سے ان كى بيوياں نہيں بنائيں، جيسا كہ جن اور انسان كى جنس مختلف ہے، اور يہ ظاہر ہے، اور اس كى تائيد اللہ تعالى كے اس فرمان سے بھى ہوتى ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و راحت پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى، يقيناً غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

چنانچہ اللہ تعالى كا فرمان:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں

يہ بطور احسان اور نعمت ہے، جو اس پر دلالت كرتا ہے كہ اللہ تعالى نے ان كى جنس كے علاوہ كسى دوسرى جنس سے ان كى بيوياں پيدا نہيں كيں.

ديكھيں: اضواء البيان ( 3 / 43 ).

اور شيخ ولى زار بن شاھز الدين حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" واقع كے اعتبار سے يہ معاملہ كچھ اس طرح ہے كہ: سب نے اس كے وقوع كاجواز قرار ديا ہے، اور اس ليے كہ اس سلسلہ ميں جائز اور ممانعت ميں كوئى قطعى نص نہيں ہے، تو ہم شرعى طور پر اس كے عدم جواز كى طرف مائل ہيں؛ كيونكہ اس كے جواز كے نتيجہ ميں كئى ايك خطرات اور خرابياں مرتب ہوتى ہيں مثلا:

1ـ بنو بشر ميں فحاشى پيدا ہو گى، اور وہ اسے جن كى طرف منسوب كر ديگا، كيونكہ جن تو غائب ہے اور اس كى صداقت كو پركھنا ممكن نہيں، اور اسلام تو اس پر حريص ہے كہ نسل اور عزت و عصمت كى حفاظت كى جائے اور پھر خرابيوں كو دور كرنا جلب مصلحت پر مقدم ہے، جيسا كہ شريعت اسلاميہ كا اصول ہے.

2 ـ ان دونوں كى شادى اور نكاح ہونے كے نتيجہ ميں اولاد اور ازدواجى زندگى كے نتائج كيا ہونگے، اور اولاد كس كى طرف منسوب ہو گى، اور ان كى خلقت كيسى ہوگى، اور آيا بيوى جن كى عدم شكل ہونے كے باوجود لازم ہو گى ؟

3 ـ جن كے ساتھ اس طرح كا معاملہ كرنے ميں انسان اذيت و ضرر سے امن ميں نہيں رہ سكتا بلكہ اسے نقصان و ضرر ہو گا اور اسلام تو بشريت كو نقصان و اذيت سے محفوظ ركھنے كى حرص ركھتا ہے.

اس طرح ہم اس دروازے كو كھولنے سے چھٹكارا حاصل كر سكتے ہيں كيونكہ يہ دروازہ كھولنے سے تو ايسى مشكلات پيدا ہونگى جن كى كوئى انتہاء ہى نہيں، اور ان كو حل كرنا بھى مشكل ہو جائيگا، اس ميں يہ بھى اضافہ كريں كہ اس كے نتيجہ ميں مرتب ہونے والے نقصانات عقل اور نفس اور عزت كے ليے يقينى نقصاندہ ہيں، اور دين اسلام تو اس كى حفاظت كى حرص ركھتا ہے، اور پھر ان دونوں كا آپس ميں شادى كرنے سے كوئى بھى فائدہ حاصل نہيں ہوگا.

اس ليے ہم تو شرعا اس كى ممانعت كى قول كى طرف مائل ہيں، اگرچہ اس كے وقوع كا احتمال ہے.

اور اگر ايسا ہو بھى جائے، يا اس طرح كى كوئى مشكل ظاہر ہو جائے تو اس كو ايك مرض اور بيمارى كى حالت شمار كرنا چاہيے جس كا اس كے مطابق علاج كيا جائے، اور اس كا دروازہ مت كھولا جائے.

ديكھيں: الجن فى القرآن و السنۃ ( 206 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب