جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

راستوں كے كنارے موجود پھل اور كھيتوں ميں سے كھانا

87565

تاریخ اشاعت : 09-11-2008

مشاہدات : 5379

سوال

عام اموال مثلا راستے كے كنارے پر موجود اگے ہوئے سركارى درختوں كے پھل كھانے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

راستے اور سڑك كے كنارے اگے ہوئے درخت كا پھل كھانےميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ عام مسلمانوں كى ملكيت ہے، اور اسے بغير چارديوارى كيے يا پھر بغير چوكيدار كے رہنے دينا اس كے كھانے اور مباح ہونے كى دليل ہے.

اور پھر باغ سے گزرنے والے شخص كو باغ كے پھل كھانے كى تو نبى كريم صلى اللہ وسلم نے بھى اجازت دى ہے ليكن وہ اپنے ساتھ كچھ نہيں لگا سكتا، يعنى وہ اس پھل كو اپنے كپڑے ميں بھر كر نہيں لے جا سكتا، اور پھر يہ باغ كا پھل تو كسى شخص كى ملكيت ہے، تو جو بيت المال كى ہو وہ بالاولى جائز ہوا.

امام ترمذى رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص كسى باغ ميں داخل ہو تو وہ كھا لے اور اسے اپنے ساتھ كپڑے ميں ڈال كر مت لے جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1287 ).

اور ابن ماجہ نے يہ حديث درج ذيل الفاظ كے ساتھ روايت كي ہے:

" جب تم ميں سے كوئى شخص كسى باغ ميں سے گزرے تو وہ كھا لے، اور اپنے ساتھ مت لے جائے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2301 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى اور صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن ماجہ نے ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم كسى چرنے والے ريوڑ كے پاس آؤ تو تين بار آواز دو، اگر تو چرواہا جواب دے تو ٹھيك وگرنہ تم بغير اسراف اور خراب كيے ( دودھ ) پى لو، اور جب تم كسى باغ كى چارديوار ميں آؤ تو باغ والے كو تين بار آواز دو اگر وہ جواب دے تو ٹھيك وگرنہ بغير فساد كيے كھا لو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2300 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ يہ احاديث كسى دوسرے كے پھل كھانے كے جواز پر دلالت كرتى ہيں، ليكن وہ اس پھل كو اپنے ساتھ نہيں ليجا سكتا، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ پہلے اس پھل كے مالك كو تين بار آواز دے، اگر تو وہ جواب دے تو اس سے اجازت حاصل كرے، اور اگر جواب نہيں ديتا تو وہ كھا سكتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" امام احمد كہتے ہيں: جب اس كى چارديوار نہ ہو تو انسان بھوكا ہونے كى صورت ميں اس باغ ميں سے پھل كھا سكتا ہے، اور اگر وہ بھوكا نہيں تو نہ كھائے.

اور ان كا كہنا ہے: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كئى ايك صحابہ كرام نے بھى ايسا كيا، ليكن اگر اس كى چار ديوارى كى گئى ہے تو اس ميں سے مت كھائے؛ كيونكہ وہ تقريبا شبہ الحرام ہو گيا ہے...

اور ابو زينب التيمى سےمروى ہے وہ كہتے ہيں: ميں نے انس بن مالك، اور عبد الرحمن بن سمرہ اور ابو بردہ رضى اللہ تعالى عنہم كے ساتھ سفر كيا تو وہ پھلوں كے پاس سے گزرتے تو وہ اس كھا ليتے تھے.

عمر اور ابن عباس اور ابو بردہ رضى اللہ تعالى عنہم كا قول بھى يہى ہے.

عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں: وہ كھا لے، ليكن اپنے ساتھ كپڑے ميں ڈال كر مت لے جائے.

اور امام احمد رحمہ اللہ سے ان كا يہ قول مروى ہے:

وہ درخت كے نيچے گرا ہوا كھا لے، اور جب درخت كے نيچےكچھ نہ ہو تو پھر وہ لوگوں كا پھل اس حالت ميں مت كھائے كہ اسے اس كى ضرورت نہ ہو، اور نہ ہى وہ پھل كو پتھر مارے اور كنكر پھينكے؛ كيونكہ يہ اسے خراب كر ديگا.....

اور اگر باغ چارديوارى والا ہو تو انسان كے ليے اس ميں داخل ہونا جائز نہيں؛ كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:

اگر تو اس كى چارديوارى كى گئى ہے تو وہ حريم يعنى ممنوع ہے، تو اس ميں سےمت كھائے، اور اگر اس كى چارديوارى نہ ہو تو كھانے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ليے بھى كہ اسے چارديوارى كے ساتھ محفوظ كرنا مالك كے بخل اور اجازت نہ دينے كى دليل ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ( 9 / 332 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" چارديوارى كىشرط لگانا محل نظر ہے؛ كيونكہ حديث كے الفاظ تو يہ ہيں:

" من دخل حائطا "

اور حائط وہ ہوتى ہے جو كسى كو محيط ہو اسے گھير لے، تو اس بنا پر ان كھجور كے درختوں ميں كوئى فرق نہيں جو كسى چارديوارى ميں ہوں، اور جن پر چارديوارى نہ كى گئى ہو.

اس ليے سنت ميں جو شرط بيان ہوئى ہے وہ يہ كہ وہ اپنے ساتھ لے جائے بغير وہاں سے كھا سكتا ہے، اور نہ ہى وہ درخت كو پتھر مارے بلكہ اپنے ہاتھ سے اتار سكتا ہے، يا پھر اگر پھل زمين پر گرا ہو تو بھى كھا سكتا ہے، اور پھر يہ بھى شرط ہے كہ وہ مالك كو تين بار آواز دے اور اگر جواب آئے تو اس سے اجازت مانگے، ليكن اگر مالك كا كوئى جواب نہيں آتا تو وہ كھا سكتا ہے، حديث اور سنت نبويہ تو اس پر دلالت كرتى ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ كا مسلك بھى يہى ہے، اور جمہور علماء كا كہنا ہے كہ ايسا كرنا جائز نہيں، انہوں نے ان احاديث كو اسلام كے ابتدائى دور يا ابتداء ہجرت پر محمول كيا ہے، كہ جب لوگ فقراء اور محتاج تھے.

ليكن بغير حاجت اور ضرورت كے جائز نہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ يہ عام ہے " انتہى.

ماخوذ از: الشرح الممتع ( 6 / 339 ).

حاصل يہ ہوا كہ راستوں اور سڑكوں كےكنارے پر موجود پھل دار درخت اور كھيت جو كسى كى ملكيت نہيں كا پھل كھانا جائز ہے، اور اسى طرح ملكيت باغات ميں سے مندرجہ بالا شروط كے ساتھ كھانا جائز ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب