اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بيوى كى پہلے خاوند سے اولاد اور دوسرے خاوند كى دوسرى بيوى كے درميان كوئى حرمت نہيں

131564

تاریخ اشاعت : 13-03-2010

مشاہدات : 6125

سوال

ميرے والد صاحب كى دو بيوياں ہيں، اور ہر ايك كى اولاد بھى ہے پہلى كى ايك بيٹى اور دوسرى كا بيٹا، اور ہر ايك نے دوسرے كے بچے كو دودھ بھى پلايا ہے، اور خاوند كے بيٹے اور بيٹياں بڑى عمر كى بھى ہيں، اور دوسرى بيوى كى پہلے خاوند سے بھى اولاد ہے تو كيا خاوند كى اولاد كے ليے دوسرى بيوى كى اولاد سے پردہ نہ كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ پہلى بيوى نے دوسرى بيوى كے بيٹے كواور دوسرى بيوى نے پہلى بيوى كى بيٹى كو دودھ پلايا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب بچہ يا بچى كسى عورت كا دودھ پيئے تو وہ عورت اس كى رضاعى ماں بن جاتى ہے، اور اس عورت كى سارى اولاد اس دودھ پينے والے بچے كے رضاعى بہن بھائى بن جاتے ہيں، اور اس عورت كا خاوند دودھ پينے والے بچے كا رضاعى والد بن جائيگا.

اور عورت كے بھائى اس بچے كے رضاعى ماموں اور عورت كى بہنيں اس بچے كى رضاعى خالائيں بن جائينگى، يہ سب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان ميں جمع ہيں:

" رضاعت سے بھى وہى حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے " متفق عليہ.

چنانچہ رضاعت سے محرم بھى رشتہ اور نسب سے محرم كى طرح ہى ہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب كوئى بچہ كسى عورت كا پانچ دو برس كى عمر ميں پانچ رضاعت دودھ پى لے تو بالاتفاق وہ شخص جو دودھ كا سبب ہے اس دودھ پينے والے بچے كا رضاعى باپ ہو گا، اس پر سب مشہور آئمہ كا اتفاق ہے، اور اسے " لبن الفحل " كا نام ديا جاتا ہے"

اور جب مرد اور عورت دودھ پينے والے بچے كے رضاعى ماں باپ بن گئے تو پھر ان دونوں كى اولاد دودھ پينے والے بچے كے بہن بھائى بن گئے، چاہے وہ صرف باپ سے ہوں يا پھر صرف عورت سے يا دونوں سے ہى، يا ان كى رضاعى اولاد ہو؛ كيونكہ وہ اس رضاعت كى بنا پر اس دودھ پينے والے بچے كے بہن بھائى بن جائينگے؛ حتى كہ اگر كسى شخص كى دو بيوياں ہوں اور ايك بيوى نے بچے اور دوسرى نے بچى كو دودھ پلايا تو وہ دونوں بہن بھائى ہونگے، اور كسى كے ليے بھى دوسرے سے شادى كرنا جائز نہيں ہوگا، اس پر مسلمان آئمہ اربعہ اور جمہور علماء كا اتفاق ہے.

اس مسئلہ كے متعلق ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:

" لقاح ايك ہى ہے، يعنى جس شخص نے دونوں عورتوں سے وطئ كى جس كى وجہ سے دودھ آيا وہ ايك ہى ہے.

اور مسلمانوں كا اتفاق ہے كہ عورت كے ان بچوں ميں جنہوں نے كسى بچے كے ساتھ دودھ پيا اور اس بچے كے درميان جو رضاعت سے قبل يا بعد ميں اس عورت كے ہاں پيدا ہوا ہو ميں كوئى فرق نہيں.

اور اگر ايسا ہى ہے تو پھر سب " عورت كے رشتہ دار اس دودھ پينے والے بچے كے رضاعى رشتہ دار ہونگے " اس عورت كى اولاد دودھ پينے والے بچے كے بہن بھائى ہونگے، اور عورت كى اولاد كى اولاد اس كے بھتيجے بھيتجياں ہونگى، اور عورت كى مائيں اس كى نانياں بن جائينگى، اور عورت كے بھائى اور بہنيں اس كے ماموں اور خالہ، اور يہ سب اس بچے پر حرام ہونگے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 31 - 32 ).

مستقف فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" جب كسى انسان نے كسى عورت كا دودھ پيا جس سے حرمت ثابت ہو جاتى ہو تو وہ اس عورت كا رضاعى بيٹا شمار ہوگا، اور اس عورت كى سارى اولاد بيٹے اور بيٹيوں كا بھائى بن جائيگا، چاہے وہ رضاعت كے وقت موجود ہوں يا رضاعت كے بعد پيدا ہوئے ہوں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور تمہارى رضاعى بہنيں "

اور جب كسى انسان نے كسى شخص كى ايك بيوى كا دودھ پيا جس سے حرمت ثابت ہو جاتى ہو تو اس شخص كى سارى اولاد دودھ پينے والے بچے كے رضاعى بہن بھائى ہونگے، چاہے وہ اس كى ايك بيوى كى اولاد ہو يا پھر سارى بيويوں كى كيونكہ دودھ تو آدمى كى طرف منسوب ہے، اور جس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتى ہے وہ دو برس كى عمر ميں پانچ يا اس سے زائد رضعات ہيں، يہ علم ميں رہے كہ ايك رضعات يہ ہے كہ بچہ عورت كے پستان كو منہ ميں ڈال كر چوسے اور سانس لينے كے ليے چھوڑے يا پھر دوسرے كو منہ ميں ڈالے تو يہ ايك رضعات شمار ہو گى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 7 ).

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر يہ ثابت ہوا كہ:

خاوند كى اولاد اور اس كى بڑى بيٹيا جنہوں نے دوسرى بيوى كا دودھ نہيں پيا ان كے ليے دوسرى بيوى كى پہلے خاوند سے اولاد كے سامنے پردہ اتارنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس عورت كے بھائى كے سامنے؛ كيونكہ ان ميں نہ تو نسب كى اخوت ہے اور نہ ہى رضاعت كى اخوت، ان اور بيوى كے بھائيوں كے مابين نہ تو نسب كى حرمت ہے اور نہ ہى رضاعت كى حرمت.

اور جس لڑكى نے دوسرى بيوى كا دودھ پيا ہے تو وہ اس بيوى كى سارى اولاد كى رضاعى بہن ہوگى، اور يہ اس مذكورہ بيوى كے بيٹے كى نسب كے اعتبار سے بھى بہن ہے جيسا كہ واضح ہے.

واللہ تعالى اعلم.

مزيد فائدہ كے ليے سوال نمبر ( 112875 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب