الحمد للہ.
ہر وہ بيمارى يا وہ عيب جو ازدواجى زندگى پر اثرانداز ہو يا پھر خاوند اور بيوى ميں سے كسى ايك ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنتا ہو اس كا بيان كرنا ضرورى ہے، اور اسے چھپانا حرام ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور قياس يہ ہے كہ: ہر وہ عيب جو خاوند يا بيوى كو ايك دوسرے متنفر كرنے كا باعث ہو، اور اس سے نكاح كا مقصد محبت و پيار اور مودت حاصل نہ ہو تو اس سے اختيار واجب ہو جاتا ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 166 ).
لہذا غير ارادى طور پر پيشاب كرنا ان عيوب ميں شامل ہوتا ہے اس ليے منگيتر كو اس عيب كے بارہ ميں بتانا ضرورى ہے ليكن اگر آپ كى بہن كو شفايابى حاصل ہوگئى ہے، يا پھر يہ بيمارى عنقريب زائل ہو جائيگى، تو پھر آپ كا اپنى بہن كے منگيتر كو اس كے بارہ ميں بتانا ضرورى نہيں.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے ايك عورت سے منگنى كى، اور اس عورت كے متعلق معروف ہے كہ اس ميں جسمانى عيب پايا جاتا ہے، ليكن يہ عيب واضح نہيں بلكہ مخفى ہے، اور پھر اس عيب سے شفايابى كى اميد ہے، مثلا برص وغيرہ كى بيمارى، تو كيا اس كے بارہ ميں منگيتر كو بتانا ضرورى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
جب كوئى شخص كسى عورت سے منگنى كرتا ہے اور اس عورت ميں كوئى پوشيدہ عيب، جسے كچھ لوگ جانتے ہوں اگر تو منگنى كرنے والا شخص اس كے بارہ ميں دريافت كرے تو اس كا بيان كرنا واجب ہے، اور يہ واضح ہے.
ليكن اگر وہ دريافت نہيں كرتا تو پھر بھى اسے بتايا جائيگا كيونكہ يہ نصيحت كے باب ميں شامل ہوگا، اور خاص كر جب وہ عيب ختم نہ ہونے والا ہو، ليكن اگر وہ عيب زائل ہونے كى اميد ہو تو پھر يہ بہت ہى ہلكا اور آسان ہے.
ليكن كچھ اشياء ايسى ہوتى ہيں جو آہستہ آہستہ زائل ہوتى ہيں مثلا برص كى بيمارى ـ اگر اس كے بارہ يہ صحيح ہو كہ يہ زائل ہو جاتى ہے ـ ليكن مجھے تو ابھى تك يہ علم نہيں كہ برص كى بيمارى ختم اور زائل ہو جاتى ہے، اس ليے جو جلد زائل ہو جائے اس ميں اور جو دير سے زائل ہو اس ميں فرق كرنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 5 ) سوال نمبر ( 22 ).
واللہ اعلم .