الحمد للہ.
یہ بہت اچھی بات ہے کہ والدین اپنے بچوں کے سوالات پر انہیں اپنی مکمل توجہ دکھائیں، چاہے والدین کا نظریہ ان کے سوالات کے بارے میں کچھ بھی ہو۔ والدین بالکل بھی ایسا رد عمل نہ دکھائیں جن سے بچے کو یہ لگے کہ امی ابو کو سوال ناگوار محسوس ہوا ہے؛ تا کہ بچے کو اپنے سوال کے متعلق کوئی مخصوص احساس نہ ہو۔
استفسار میں مذکور سوال پرتو خصوصاً ایسا جواب ہو جو بچے کو مطمئن کر دے، مثلاً جواب میں والدہ یہ کہہ دے کہ یہ اللہ تعالی کی قدرت سے ہوا ہے، اور اللہ تعالی زندہ کو مردہ سے پیدا کرتا ہے اور مردہ کو زندہ سے پیدا کرتا ہے، بچے کے لیے یہ بھی واضح کرے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا، اور پھر آدم علیہ السلام کی بقیہ اولاد اور بیٹوں کو ماؤں کے بطن سے پیدا فرمایا، یہاں اللہ تعالی کی قدرت بھی عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے کس طرح اسے ماں کے پیٹ میں پیدا فرمایا، پھر ماں کے پیٹ میں اللہ تعالی نے اس کے لیے کیا کچھ انتظامات فرمائے تا کہ یہ جنین مقررہ مدت تک ماں کے پیٹ میں رہے، ماں بچے کو بتلائے کہ کس طرح سے جنین نطفہ سے علقہ بنتا ہے، پھر مضغہ اور پھر اس میں ہڈیاں بنتی ہیں۔
تو اس انداز سے والدہ اپنے بچے کو قدرت الہی سے متعارف کروائے کہ اللہ تعالی کس طرح اپنے بندوں کی تخلیق فرماتا ہے، پھر ان کا خیال رکھتا ہے اور کس طرح اللہ تعالی بچے کی پیدائش فرماتا ہے، پھر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ماں کے پیٹ میں بچے کے رزق کا انتظام فرمایا، اور بچے کو اس رزق کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا، اور نہ ہی ماں کو اس رزق کے لیے خصوصی کد و کاوش کرنی پڑتی ہے۔
یہ بھی واضح کرے کہ کس طرح اللہ تعالی نے جنین کو ماں کے پیٹ میں مقررہ مدت تک ٹھہرایا، اور پھر اللہ تعالی کی قدرت سے یہ بچہ ماں کے پیٹ سے اس طرح نکلتا ہے جیسے انڈے سے چوزہ برآمد ہوتا ہے۔
تو اس طرح والدہ اپنے بچے کے سوالات کا جواب دے سکتی ہے، اس عمر میں عمومی جوابات دیے جاتے ہیں جس کو سن کو بچہ مطمئن ہو جاتا ہے، پھر یہ عمومی جواب کوئی جھوٹ بھی نہیں ہے بلکہ یہ صحیح اور ثابت شدہ باتیں ہیں، یہاں یہ بھی بہتر ہو گا کہ قرآنی آیات کا تذکرہ بھی کیا جائے۔ اس سے یہ ہو گا کہ بچے کے ساتھ بات کرنے کا ایک بالکل ہی الگ تھلگ میدان سامنے آ جائے گا، اور حساس نوعیت کے پیچیدہ سوالات سے چھٹکارا بھی مل جائے گا، دوسری طرف جھوٹی اور غلط باتیں بھی بچوں کے ساتھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
واللہ اعلم