ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

چڑيا گھر كى سير كرنے كا حكم

1608

تاریخ اشاعت : 09-11-2007

مشاہدات : 5853

سوال

سير و تفريح كى غرض سے مختلف اشكال كے چڑيا گھروں كى سير كرنا اور وہاں كے مناظر ديكھنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جانوروں كو پنجروں ميں بند ركھنے كے جواز كے قول كى بنا پر ان جانوروں كو ركھے گئے جگہوں پر جانا اور وہاں سير و تفريح كرنا جنہيں آج كل چڑيا گھر كہا جاتا ہے جائز ہوگا، تا كہ جانوروں كى مختلف اقسام ديكھى جا سكيں.

اور بطور مبالغہ اس كو مستحب اور مندوب كہنا صحيح نہيں، كيونكہ ا سكا مقصد تو صرف يہ ہے كہ اللہ تعالى كى مخلوق كو ديكھ كر اللہ كى مخلوقات ميں غور و فكر كيا جائے، اور ان جانوروں كو ديكھ كر اس كى نشانياں اور جانوروں كى زندگى و طبيعت كا مشاہدہ كيا جائے، جس سے مشاہدہ كرنے والے ميں بہت اچھے آثار پيدا ہوتے ہيں، جو اس كے ليے اپنے پروردگار پر ايمان كى زيادتى و مضبوطى اور اللہ كى بلند بالا صفات پر ايمان ميں گہرائى كا باعث بنتے ہيں، مثلا اللہ كى صفات قدرت و عظمت، اور حكمت وغيرہ پر ايمان ....

اس طرح كے چڑيا گھروں كى زيارت كرنے سے ہم يہ بہتر نتائج حاصل كرتے ہيں، تو قرآن مجيد كى ہميں وہ دعوت ياد آ جاتى ہے جو اللہ تعالى كى عظيم مخلوقات اور اس جہان ميں غور و فكر اور تدبر كرنے كى دى گئى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور كيا ان لوگوں نے آسمان و زمين كو ديكھ كر غور و فكر نہيں كيا، اور اللہ تعالى نے جو دوسرى اشياء پيدا كى ہيں ان ميں غور نہيں كيا الاعراف ( 185 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى كى نعمتوں پر غور و فكر كرو، اور اللہ تعالى كى ذات ميں غور و فكر مت كرو "

اسے امام بيھقى نے شعب الايمان ( 1 / 136 ) اور لالكائى نے السنۃ ( 3 / 525 ) ميں روايت كيا ہے، ديكھيں: سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 4 / 395 ).

ليكن يہاں ايك چيز پر تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ: چڑيا گھروں ميں برائى كى كثرت جس ميں مرد و عورت كا اختلاط بھى ہے پائى جاتى ہيں، حتى كہ ان جگہوں پر بھى برائى كى كثرت ہے جہاں مردوں اور عورتوں كے ليے باقاعدہ ايام مخصوص كيے جاتے ہيں، عورتيں ايسا لباس پہن كر آتى ہيں جو جائز نہيں، حتى كہ وہ لباس پہن كر تو كسى دوسرى عورت كے سامنے آنا بھى جائز نہيں.

اس ليے ايسى جگہوں ميں دعوتى پروگرام ترتيب دينا ضرورى ہيں ا كہ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كا كام كيا جاسكے، تا كہ اس طرح كى جگہيں شرعى مخالفات اور تساہل پسندى كا باعث نہ بن جائيں، اور ايسے ممالك جہاں پاركوں ميں اصلاح كرنا ممكن نہيں، وہاں مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ كوئى مناسب وقت اختيار كرے تا كہ بيوى بچوں كو تفريح كى غرض سے لے كر جائے، وگرنہ وہ ان فساد و خرابى كى جگہوں سے دور ہى رہے تو بہتر ہے، تا كہ اپنے آپ اور اہل و عيال كو بھى اس فساد كا مشاہدہ كرنے سے بچا سكے، جو ان كے دين كے ليے بھى نقصاندہ ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنےوالا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد