جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

تارک نماز کو کافر قرار دینے یا نہ دینے والے دونوں ہی اجماع کا دعوی کرتے ہیں، ہم ان دونوں اقوال کو کیسے سمجھیں؟

194309

تاریخ اشاعت : 11-06-2014

مشاہدات : 36969

سوال

میں نے نماز نہ پڑھنے والے شخص کے متعلق علمائے کرام کی آراء پڑھی ہیں، چنانچہ کچھ نے ایسے شخص کو کافر اور مرتد کہا ہے، اور کچھ نے فاسق کہا ہے، اور پہلے گروہ نے اس بات پر اجماع کا دعوی بھی کیا ہے، تو سوال یہ ہے کہ اگر اس مسئلہ میں سب کا اجماع تھا تو اس اجماع کے بارے میں ابو حنیفہ، مالک، اور شافعی رحمہم اللہ کو علم کیو ں نہیں ہوا؟ انہوں نے بھی اسی اجماع کے مطابق فتوی کیوں نہیں دیا، بلکہ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ امام احمد سے ایک روایت ان تینوں ائمہ کرام کے موقف سے موافق بھی ملتی ہے، ایسے ہی میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ امام شوکانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ تارک نماز کافر نہیں ہے، اور اس بات پر سلف کا اجماع ہے، تو پہلے گروہ کو اس مسئلہ میں اجماع کہاں سے ملا؟ اور پھر یہ اجماع دوسرے گروہ کے علمائے کرام سے اوجھل کیوں رہا، انہوں نے اسی کے مطابق فتوی کیوں نہیں دیا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ تعالی نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن پھر بھی نماز کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے نمازیں نہ پڑھے، تو ایسا شخص اجماعِ امت کے مطابق کافر ہے۔

اورجس شخص کو نماز کی فرضیت کا علم نہیں تھا وہ نماز کو ترک کردے جیسے کہ نومسلم افراد تو ان پر کفر کا فتوی نہیں لگایا جائے گا، بلکہ انہیں سکھایا ، اور نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کی فرضیت کا منکر شخص کافر ہے، اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو اسے قتل کردیا جائے گا، لیکن جو شخص نماز کی فرضیت کا قائل اور نمازیں پڑھنے پر قادر بھی ہو، لیکن پھر بھی عملی طور پر نمازیں نہ پڑھے تو ایسے شخص کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے" انتہی

"الاستذكار" (2 /149)

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

تارک نماز کی دو صورتیں ہیں: نماز کی فرضیت کا انکاری ہوگا، یا فرضیت کو تسلیم کرتا ہوگا، اگر تو فرضیت کا انکاری ہے تو دیکھا جائے گا: اگر وہ نماز کی فرضیت سے لا علم ہے، اور وہ ایسے لوگوں میں سے ہے جو واقعی نماز کی فرضیت سے لاعلم ہوں، مثال کے طور پر: نو مسلم افراد، جنگلوں میں رہنے والے افراد وغیرہ تو انہیں نماز کی فرضیت کے بارے میں بتلایا جائے گا، اور طریقہ بھی سیکھایا جائے گا، ان لوگوں پر کفر کا فتوی نہیں لگ سکتا؛ کیونکہ انکا عذر مقبول ہے۔

اور اگر نماز کی فرضیت کا انکاری شخص ایسے لوگوں میں سے نہیں ہے جو نماز کی فرضیت سے لاعلم رہیں مثال کے طور پر چھوٹے بڑے شہروں میں رہنے والے افراد ، تو انکا عذر قبول نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی لاعلمی کا دعوی تسلیم کیا جائے گا، اس پر کفر کا فتوی بھی لگے گا، کیونکہ نماز کی فرضیت کے دلائل کتاب وسنت میں موجود ہیں، اور مسلمان ہمیشہ سے نمازیں پڑھتے آئے ہیں، چنانچہ مسلمانوں کے درمیان رہنے والے شخص سے نماز کی فرضیت مخفی نہیں رہ سکتی، لہذا ایسا شخص اللہ ، اسکے رسول اور اجماع امت کو مسترد کرتے ہوئے نماز کا انکار کر رہا ہے، اس بنا پر یہ شخص مرتد ہوگا،اور اسکے ساتھ توبہ کا موقع فراہم کرنے کے بعد قتل کا معاملہ بالکل مرتدین ہی کی طرح کیا جائے گا، اور اس بات پر کسی قسم کا اختلاف بھی نہیں ہے" انتہی

"المغنی" (2/156)

اور جو شخص نماز کے معاملے میں سستی اور کوتاہی برتتے ہوئے نماز چھوڑ دے تو اس کے بارے میں علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں، چنانچہ کچھ علمائے کرام کفر کا حکم لگاتے ہیں، اور کچھ علمائے کرام اسکے قائل نہیں ہیں، اور کچھ علمائے کرام تفصیل سے کام لیتے ہیں کہ اگر بالکل ہی نمازیں نہیں پڑھتا تو وہ کافر ہے، اور جو شخص کبھی پڑھ لی اور کبھی نہ پڑھی تو ایسے لوگوں کے بارے میں کفر کا حکم نہیں لگاتے۔

چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (27/53-54) میں ہے کہ :

"مالکی اور شافعی علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز کا انکار تو نہیں کرتا لیکن سستی اور کاہلی کی بنا پر نماز ترک کرتا ہے تو ایسے شخص کو حد لگاتے ہوئے قتل کردیا جائے گا، یعنی اسکے قتل کے بعد اسکا حکم مسلمان والا ہی ہوگا، اسے غسل دیکر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔

حنبلی کہتے ہیں کہ : سستی اور کاہلی کی وجہ سے نماز ترک کرنے والے شخص کو نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے گی، اور کہا جائے گا: "نماز پڑھو، ورنہ ہم تجھے قتل کردینگے"تو اگر نماز پڑھ لے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کرنا واجب ہے، لیکن اسے قتل کرنے کیلئے تین دن قید میں رکھا جائے گا، اور ہر نماز کے وقت اسے نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے گی، تو اگر نمازیں پڑھنا شروع کردے تو ٹھیک ورنہ حد لگاتے ہوئے اسے قتل کردیا جائے گا، جبکہ کچھ حنابلہ کا کہنا ہے کہ کفر کا حکم لگاتے ہوئے قتل کیا جائے گا،یعنی اسے غسل نہیں دیا جائے گا، اور نہ ہی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں اسے دفن کیا جائے گا، اور اس کے اہل و عیال کو غلام یا قیدی نہیں بنایا جائے گا ، جیسے کہ دیگر مرتدین کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا"انتہی

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتےہیں:

"میں یہ سمجھتا ہوں کہ کافر اسی وقت ہوگا جب بالکل ہی نمازیں ترک کردے، کہ بالکل نماز نہ پڑھے ، چنانچہ اگر کوئی کبھی نماز پڑھ لے اور کبھی نہ پڑھے ایسا شخص کافر قرار دنہیں دیا جاسکتا"انتہی

"مجموع فتاوى ابن عثيمين " (12/55)

مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر : (5208) اور (83165) کا مطالعہ کریں۔

متعدد اہل علم نے تارک نماز کے کافر ہونے پر اجماع بھی نقل کیا ہے، چنانچہ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لیکر ہمارے دور تک تمام اہل علم کی یہی رائے رہی ہے کہ تارک نماز کافر ہے"انتہی

"الاستذكار" (2 /150)

ان اہل علم نے تارک نماز پر کفر کا حکم لگانے والی نصوص کے ظاہر کو دلیل بنایا ہے، اسی طرح عبد اللہ بن شقیق العقیلی کے قول کو بھی حجت بنایا ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نماز کے علاوہ کسی بھی عمل ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے) اسے ترمذی (2622) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

آپ مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (9400) کا بھی مطالعہ کرسکتےہیں۔

جبکہ اس موقف کی مخالفت کرنے والے علمائے کرام نے بھی تارک نماز کو کافر قرار نہ دینے پر اجماع ذکر کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:

"اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے؛ کیونکہ گذشتہ کسی بھی زمانے میں تارک نماز کی تجہیز و تکفین ، نمازِ جنازہ نہیں چھوڑی گئی اور اسے مسلم قبرستان میں دفن کرنے سے نہیں روکا گیا، اسکی وراثت بھی نہیں روکی گئی، اسکا مال وارثوں میں تقسیم کیا گیا ہے، نماز چھوڑنے کی وجہ سے میاں بیوی میں جدائی نہیں ڈالی گئی، حالانکہ نمازیں چھوڑنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، چنانچہ اگر کوئی نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر ہوتا تو یہ تمام احکام اس پر لاگو کئے جاتے، اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کے نزدیک نماز چھوٹ جانے پر اسکی قضا ضروری ہوگی، اگر کوئی نماز ترک کرنے پر مرتد ہوجائے تو اس سے کسی بھی نماز روزے کی قضا کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ تماز ترک کرنے پر کفر کاحکم لگانے والی احادیث کو شدت، اور کفار سے مشابہت پر محمول کیا جائے گا، حقیقت پر محمول نہیں کیا جائے گا، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے)، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان: (شراب پینے والا بت کی پوجا کرنے والے کی طرح ہے) اس کے علاوہ اور بھی احادیث ہیں جن میں وعید بیان کرنے کیلئے سختی کرنا مقصود ہے"انتہی

دیکھیں: "المغنی" (2/157)

اس قسم کے مسائل میں فریقین کی جانب سے اجتہاد کیا گیا ہے، چنانچہ پہلے موقف والے حضرات نے عبد اللہ بن شقیق کے گذشتہ قول کو تارک نماز کے بارے میں صحابہ کرام کے اجماع کی دلیل سمجھا ، اور پھر اسی کی بنا پر صحابہ کا اجماع نقل کردیا۔

جبکہ دوسرے موقف والے افراد نے ہر زمانے میں مسلمانوں کے عمل کو مد نظر رکھا ہے کہ، تارک نماز کو غسل بھی دیا گیا، اسکی نمازِ جنازہ بھی اد اکی گئی، اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن کیا گیا، مذکورہ اور دیگر معاملات کی وجہ سے انہوں نے مسلمانوں کے اجماع کی دلیل بنائی کہ تارک نماز کافر نہیں ہے، اور انہوں نے تارک نماز کے کافر ہونے پر پیش کی جانے والی احادیث کو سختی اور ڈانٹ پر محمول کیا ہے، اور انہی آثار میں سے عبد اللہ بن شقیق کا قول بھی ہے۔

بہر حال مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں، تو جس طرح فریقین کا دلائل اور فہمِ دلائل میں اختلاف ہے، اسی طرح اجماع بیان کرنے کیلئے پیش کئے جانے والے دلائل میں بھی اختلاف ہے، چنانچہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ: جن شرعی نصوص سے اِنہوں نے استدلال کیا ہے، یہ شرعی نصوص اُنہیں پتا نہیں چلیں؟ کیونکہ انہیں ان دلائل کا علم تھا لیکن انہوں نے اسکو سمجھنے کی کوشش کی اور ان نصوص سے شرعی حکم بھی استنباط کیا، تو اسی طرح اجماع کا مسئلہ ہے، کیونکہ تارک نماز کو کافر نہ کہنے والے افراد ان احادیث ، یا قولِ عبداللہ بن شقیق کا انکار نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ان نصوص میں کفر کا لفظ تارک نماز پر تو بولا گیا ہے، لیکن اس کفر سے مراد دین سے خارج کر دینے والا کفر مراد نہیں ہے، چنانچہ اس بنا پر اس مسئلہ میں اختلاف کی گنجائش پیدا ہوئی۔

چنانچہ پہلے گروہ نے نصوص کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے اجماع نقل کیا، -ان نصوص کے ثابت ہونے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے- اسی طرح انہوں نے عبد اللہ بن شقیق اور اسحاق بن راہویہ کے قول وغیرہ کو بنیاد بنایا۔

جبکہ دوسرے گروہ نے ہر زمانے اور وقت میں ساری امت کے عمل کو بنیاد بنا کر اجماع نقل کیا ہے۔

اس لئے فریقین کی طرف سے اجماع نقل کرنا نظر وفکر اور اجتہاد کا نتیجہ ہے، اسی لئے اگر ایک گروہ کا اجماع دوسرے گروہ کے ہاں ثابت ہوگیا تو دوسرا گروہ کبھی بھی پہلے کی مخالفت نہیں کریگا، مسئلہ یہ ہے کہ پہلے اجماع ثابت ہو۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب