جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حكم سے جہالت عذر ہے نہ كہ سزا سے جاہل ہونا

20237

تاریخ اشاعت : 18-04-2009

مشاہدات : 8794

سوال

مجھے معلوم ہے كہ جان بوجھ كر سستى و كاہلى سے نماز ترك كرنا كفر اكبر ہے، اور ايسا كرنے والا شخص كافر شمار ہوتا ہے، مگر جب اس كے پاس جاہل ہونے كا عذر ہو، ليكن جہالت سے مراد كيا ہے، آيا نماز كى فرضيت سے جاہل ہونا، يا كہ اس حقيقت سے جاہل ہونا كہ عمدا نماز ترك كرنا كفر ہے ؟ برائے مہربانى سلف علماء كے اقتباسات سے وضاحت فرمائيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

وہ جہالت جو عذر بن سكتى ہے وہ حكم سے جاہل ہونا ہے، اس ليے جو شخص كسى واجب اور فرض كو اس ليے ترك كرتا ہے كہ اسے اس كے فرض ہونے كا علم نہيں تھا، يا پھر اس نے كوئى حرام كام اس ليے كيا كہ اسے اس كى حرمت كا علم نہ تھا تو وہ جاہل شمار ہو گا جو اپنى جہالت كى بنا پر معذور ہے.

ليكن جو شخص يہ جانتا ہو كہ وہ فعل حرام ہے، ليكن اس نے اس كى سزا سے جاہل ہونے كى بنا پر اس حرام فعل كا ارتكاب كيا تو يہ عذر شمار نہيں ہو گا، كيونكہ اس فعل كے مرتكب شخص نے معصيت كا ارتكاب كيا اور حرمت كا علم ہونے كے باوجود حد سے تجاوز كيا.

چنانچہ مثلا: جس كسى نے بھى زنا كا ارتكاب كيا اور اسے اس كى حرمت كا علم نہ تھا، تو اس پر كچھ نہيں اور وہ اپنى جہالت كى بنا پر معذور ہو گا.

ليكن جس شخص نے زنا كى حرمت كا علم ہوتے ہوئے زنا كا ارتكاب كيا اور اسے زنى كى حد كا علم نہ تو يہ معذور نہيں، جب حد لاگو كرنے كى شروط متوفر ہوں تو اس پر زانى كى حد لاگو كرنا ضرورى ہے.

اور اسى طرح جس نے بھى نماز كى فرضيت سے جاہل ہونے كى بنا پر نماز ترك كى تو يہ اپنى جہالت كى بنا پر معذور ہو گا اور اسے كافر نہيں قرار ديا جائيگا، ليكن جو شخص نماز ترك كرنے كى حرمت كا علم ركھتے ہوئے نماز ترك كرتا ہے ليكن اسے نماز ترك كرنے والے كے كافر ہو جانے كا علم نہيں تو يہ شخص معذور نہيں ہو گا.

ذيل ميں اوپر بيان كردہ كلام كے دلائل ميں اہل علم كے اقوال پيش كيے جاتے ہيں:

ا - جو كوئى ممنوعہ فعل كے حكم سے جاہل ہو اور اس فعل كا مرتكب ٹھرے، اور اس فعل كى سزا حد يا كفارہ ہو تو اس پر كچھ لازم نہيں.

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زنا كا اعتراف كرنے والے كو فرمايا تھا:

" كيا تمہيں معلوم ہے كہ زنا كيا ہے ؟ الخ "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4428 ) اس حديث كى اصل صحيحين ميں ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور انہوں نے ابو داود كى روايت كو صحيح قرار ديا ہے اس ميں ہے:

حرام كا علم نہ ہونے والے پر حد واجب نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے زنا كے حكم كے متعلق دريافت كيا تھا تو اس نے جواب ديا:

" ميں نے اس كے ساتھ وہ حرام كام كيا ہے جس طرح مرد اپنى بيوى كے ساتھ حلال كام كرتا ہے " اھـ

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 33 ).

ب ـ اور اگر اسے حرام ہونے كا علم ہو ليكن اس فعل كے ارتكاب پر مرتب ہونے والى حد يا كفارہ كا علم نہ ہو تو اس پر حد لاگو كرنى واجب ہے كيونكہ اس نے حرام فعل كا ارتكاب كيا ہے، اور اگر اس گناہ كا كفارہ ہو تو اس كا كفارہ نكالنا واجب ہے.

اس كى دليل ماعز رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جس ميں انہوں نے زنا كرنے كا اعتراف كيا اور وہ كہنے لگے:

" لوگو مجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لے چلو ميرى قوم نے مجھے مار ڈالا اور مجھے دھوكہ ديا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4420 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء ( 7 / 354 ) ميں اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے، تو يہ صحابى رضى اللہ تعالى عنہ زنا كى حرمت كا علم ركھتے تھے ليكن انہيں زنا كى سزا كا علم نہيں تھا وہ اس سے جاہل تھے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر حرمت كا علم ہو تو سزا سے جاہل ہونا حد كو ساقط نہيں كرتا كيونكہ ماعز رضى اللہ تعالى عنہ كو زنا كى سزا كا علم نہيں تھا كہ اس كى سزا قتل ہے، اور اس جہالت كى بنا پر ان سے يہ حد ساقط نہيں ہوئى "

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 34 ).

اور اسى طرح وہ صحابى جس نے رمضان المبارك ميں دن كے وقت بيوى سے حرمت كا علم ہونے كے باجود بيوى سے عمدا جماع كر ليا جيسا كہ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كى دليل اس كا يہ قول ہے: ميں ہلاك ہو گيا " اور ايك روايت ميں ہے: " ميں جل كر راكھ ہو گيا "

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس پر كفارہ عائد كيا اور اسے اس سزا سے جاہل ہونے كو عذر نہيں مانا، ديكھيں صحيح بخارى حديث نمبر ( 1834 ) اور صحيح مسلم حديث نمبر ( 1111 ).

فتح البارى ( 4 / 207 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر كوئى يہ كہے:

جو شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تھا كيا وہ جاہل نہيں تھا ؟

اس كا جواب يہ ہے:

" وہ اس سے جاہل تھا كہ اس پر كيا واجب ہے، اس كے حرام ہونے سے جاہل نہيں تھا اور اسى ليے اس نے كہا تھا: " ميں تباہ ہو گيا "

اور جب ہم يہ كہيں كہ جہالت عذر ہے، تو اس سے يہ مراد نہيں كہ اس حرام فعل پر مرتب ہونے والى سزا كى جہالت، ليكن ہمارى مراد اس فعل سے جہالت ہے كہ آيا يہ حرام ہے يا كہ حرام نہيں، اسى ليے اگر كسى نے زنا كى حرمت سے جاہل ہوتے ہوئے زنا كا ارتكاب كيا اور وہ كسى غير اسلامى ملك ميں بسنے والوں ميں سے ہو يعنى اس نے نيا اسلام قبول كيا ہو، يا پھر وہ كسى دور دراز بستى ميں رہتا ہو جنہيں زنا كى حرمت كا علم نہ ہو تو وہ شخص زنا كر لے اس پر حد نہيں ہو گى.

ليكن اگر وہ جانتا ہو كہ زنا حرام ہے اور اسے زنا كى حد رجم يا كوڑے اور جلاوطنى كا علم نہ ہو تو اسے حد لگائى جائيگى كيونكہ اس نے حرمت پامال كى ہے، اور كسى فعل پر مرتب ہونے والى سزا سے جاہل ہونا عذر نہيں، بلكہ فعل سے جہالت آيا وہ حرام ہے يا حلال يہ عذر ہے " اھـ

ديكھيں: شرح الممتع ( 6 / 417 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب