الحمد للہ.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى ہے:
" عورت كے ليے ابرو كے بال اكھيڑنے جائز نہيں، يہ وہ نمص ہے جس كے مرتكب پر اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نى لعنت كى ہے لہذا النامصۃ وہ عورت ہے جو كسى دوسرى عورت كے ابرو كے بال اكھيڑے، اور المتنمصۃ وہ عورت ہے جو ايسا كرواتى ہے، اور اسى طرح اگر وہ خود كرے، اور يہ فعل حرام ہے، جائز نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندوں كے ليے جو فرض كرتا ہے اس ميں كوئى نہ كوئى حكمت پنہاں ہوتى ہے، كچھ لوگ خوبصورت شكل كے مالك ہوتے ہيں، اور كچھ اس سے كم تر، سارا معاملہ اللہ كے ہاتھ ميں ہے، آدمى پر واجب ہے كہ وہ صبر كرے، اور اللہ تعالى سے اجروثواب كى نيت ركھے، اور اللہ كى حرمات كو اپنى شہوت كى بنا پر پامال مت كرے.
ميرى رائے تو يہ ہے كہ وہ اس ميں مطلقا كچھ بھى نہ كاٹے، الا يہ كہ اگر ابرو سے كوئى بال باہر نكل جائے، مثلا اس ميں كوئى بد صورتى ہو تو اس حالت ميں وہ بدصورتى والے بال اتارنے ممكن ہيں نہ كہ خوبصورتى اور جمال كے ليے. واللہ تعالى اعلم.
ديكھيں: فتاوى منار الاسلام للشيخ ابن عثيمين ( 3 / 832 ).
اور شيخ ابن جبرين كہتے ہيں:
" ابرو كے بال كاٹنا جائز نہيں، اور نہ ہى مونڈنا اورانہيں كم كرنا جائز ہے، اور نہ ہى اكھيڑنا، چاہے خاوند اس پر راضى بھى ہو، اس ميں كوئى خوبصورتى نہيں، بلكہ يہ تو اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى توا حسن الخالقين ہے، ايسا كرنے ميں شديد وعيد آئى ہے، اور ايسا كرنے والے پر لعنت كى گئى ہے، اور يہ حرام ہے "
واللہ اعلم .