الحمد للہ.
ابوبکر بن العربی کا کہنا ہے :
فرمان باری تعالی اذاحضر احدکم الموت جب میں سے کسی کی موت کا وقت آجاۓ :
ہمارے علماء کا قول ہے کہ یہاں سے مراد حقیقتا موت کا حاضر ہونا نہيں کیونکہ اس وقت کی گئ توبہ قبول نہیں ہوتی ، اورنہ ہی اس کا اس وقت دنیا میں کوئ حصہ ہی رہتا ہے ، اورنہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کی کلام سے کوئ لفظ ہی منظم کیا جاسکے ، اوراگر معاملہ اس پرمحمول ہوتوتکلیف محال ہے جس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا ، ولکن یہ معاملہ دومعنوں کی طرف لوٹتا ہے :
اول :
جب موت کے حاضرہونے کا وقت قریب ہو ، اور اس کی نشانیاں یہ ہیں عمرمیں زیادتی یا ظاہر ہوجاۓ ، کیونکہ یہ دھوکہ ہے ، یا اس کےعلاوہ کوئ اوراچانک معاملہ پیدا ہوجاۓ ، یا اس بات کا یقین ہوجاۓ کہ یہ لامحالہ آنے والا ہے ، ( ہوسکتا ہے کہ اس پرموت اچانک آجاۓ )
دوم :
اس کا معنی یہ ہے کہ : جب وہ بیمار ہوجاۓ ، کیونکہ بیماری موت کا سبب ہے ، تو جب سبب حاضر ہوجاۓ تو عرب مسبب کوبطورکنایـہ ذکرکرتے ہیں ایک عربی شاعر کا شعر ہے :
اور انہیں کہہ دو کہ عذرپیش کرنےمیں جلدی کرو اور ایسا قول تلاش کرو جوتمہیں بری قرار دے بیشک میں موت ہوں ۔ .