الحمد للہ.
جس كسى نے بھى حرام اشياء كى تجارت كى مثلا موسيقى كے آلات، اور حرام كيسٹيں اور سى ڈيز اور سگرٹ, تمباكو وغيرہ، اور اسے ان اشياء كے حكم كا بھے علم ہو، اور پھر وہ توبہ كرلے تو اس حرام تجارت سے حاصل ہونے والى آمدنى سے چھٹكارہ پانے كے ليے اسے خير وبھلائى كے كاموں ميں صرف كردے، نہ كہ صدقہ و خيرات ميں، كيونكہ اللہ تعالى پاكيزہ ہے اور پاكيزہ اشياء كے علاوہ كچھ پسند نہيں كرتا.
اور جب حلال اور حرام مال خلط ملط ہو چكا ہو، جس طرح كہ اس دوكاندار كے مال كى طرح جو اپنى دوكان ميں سگرٹ اور دوسرى حلال اشياء بھى فروخت كرتا ہے، تو اسے اس حرام مال كا اندازہ لگانا چاہيے، اور اسے خير وبھلائى كے كاموں ميں صرف كردے، حتى كہ اس كے ظن ميں غالب طور پر يہ آجائے كہ اب باقى مال حرام سے صاف ہو گيا ہے، اللہ تعالى اس كے عوض ميں اسے بہتر عطا فرمائے گا، اور وہ بہت وسعت اور كرم والا ہے.
اور عمومى طور پر يہ ہے كہ جس كسى كے پاس حرام كمائى كا مال ہو اور وہ توبہ كرنا چاہے تو اگر وہ:
1 - اگر تو وہ اس كمائى كرنے كے وقت كافر تھا تو اس پر توبہ كرتے وقت اس مال كو نكالنا لازم نہيں ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو اسلام قبول كرنے پر ان كے پاس موجود حرام مال نكالنے كا حكم نہيں ديا تھا.
2 - اور اگر وہ حرام كمائى كے وقت مسلمان تھا اور اسے اس كى حرمت كا علم تھا تو پھر توبہ كےوقت اسے وہ حرام مال نكالنا ہوگا.
واللہ اعلم .