الحمد للہ.
جب كوئى شخص حج كرنے كا عزم كر لے اور پھر اسے موت آ جائے تو يا تو وہ احرام سے قبل فوت ہوا يا پھر احرام كے بعد.
اگر اسے احرام سے قبل ہى موت آ گئى تو اللہ تعالى اسے اس كى نيت كے مطابق اجروثواب سے نوازے گا، ليكن اس كى جانب سے فرضى حج كرنا واجب ہو گا.
اور اگر اسے احرام باندھنے كے بعد موت آئى ہو تو اسے حج كا اجرو ثواب حاصل ہو گا، بلكہ وہ روز قيامت تلبيہ كہتا ہوا اٹھے گا، تو اس بنا پر اس كى جانب سے حج نہيں كيا جائے گا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے حج كے ليے مال جمع كيا ليكن حج كرنے سے قبل ہى اسے موت آ گئى ايسے شخص كا حكم كيا ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" يہ شخص جس نے حج كرنے كا عزم كيا اور اپنے پاس جو كچھ تھا اسے حج كرنے كے ليے فروخت كر ديا ليكن حج كرنے سے قبل ہى اسے موت آ گئى تو ہم اللہ تعالى سے اميد ركھتے ہيں كہ اس كے ليے حج كا اجروثواب لكھا جائے گا، كيونكہ اس نے عمل صالح كى نيت كى تھى، اور اس كے ليے اپنى استطاعت كے مطابق اسباب بھى پورے كيے.
اور جو شخص كسى عمل كى نيت كر كے حسب استطاعت اس كے اسباب بھى پورے كرتا ہے تو اس كے ليے اس كا اجروثواب لكھ ديا جاتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى اللہ تعالى كى راہ ميں ہجرت كرے وہ زمين ميں بہت جگہ اور وسعت پائے گا، اور جو كوئى اپنے گھر سے اللہ اور اس كے رسول كى طرف ہجرت كر كے نكلے پھر ا سے موت آ جائے تو اللہ پر اس كا اجر واقع ہو گيا النساء ( 100 ).
اور اگر اس شخص نے حج كرنے كے ليے اپنا مال فروخت كر ديا تا كہ فرضى حج ادا كر سكے تو اس كى موت كے بعد اس كى جانب سے اس رقم كے ساتھ حج كيا جائے گا جو اس نے تيار كى تھى، يا تو اس كے وليوں ميں كوئى شخص حج كرے يا پھر كوئى اور شخص، ابن عباس رضى اللہ عنہما كى حديث ميں ہے كہ:
" ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ نے حج كرنے كى نذر مانى تھى تو وہ حج كرنے سے قبل ہى فوت ہو گئى تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كر سكتى ہوں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " جى ہاں"
اور يہ واقع حجۃ الوداع كے موقع پر پيش آيا" انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 232 ).
اور شيخ رحمہ اللہ تعالى سے يہ بھى دريافت كيا گيا:
ايك شخص اپنے ملك سے حج كرنے كے ليے آيا اور راستے ميں ہوائى جہاز تباہ ہو گيا تو كيا يہ شخص حاجى شمار ہو گا؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
حج كے ليے جانے والا شخص اگر نكلنے سے قبل فوت ہو جائے تو وہ حاجى نہيں، ليكن اللہ تعالى اس كو اس عمل پر اجروثواب سے نوازے گا، ليكن اگر اس نے احرام باندھ ليا تو پھر وہ حاجى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميدان عرفات ميں وقوف كى حالت ميں اونٹنى سے گر كر ہلاك ہونے والے شخص كے متعلق فرمايا تھا:
" اسے پانى اور بيرى كے ساتھ غسل دو، اور اسے انہيں دو كپڑوں ميں دفن كردو، اور اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ہى اس كا سر ڈھانپو، كيونكہ يہ روز قيامت تلبيہ كہتا ہوا اٹھے گا "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس كى جانب سے حج قضاء كرنے كا حكم نہيں ديا، جو كہ اس كى دليل ہے كہ وہ حاجى تھا" انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 252 ).
واللہ اعلم .