الحمد للہ.
پہلے سوال نمبر: (22422) کے جواب میں علمائے کرام کا “لمم” کے معنی کی تعیین کے متعلق اختلاف بیان کیا جا چکا ہے ، یہ لفظ فرمانِ باری تعالی: الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ترجمہ: جو لوگ کبیرہ گناہوں اور فحش کاموں سے بچتے ہیں۔ سوائے لمم کے تو یقیناً تیرا رب بہت وسیع مغفرت والا ہے۔[النجم: 32] میں موجود ہے۔ تو جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ لمم سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان صغیرہ گناہوں کو معمولی سمجھے اور ارتکاب کرتا چلا جائے، بلکہ صغیرہ گناہوں کا تسلسل سے ارتکاب اسے کبیرہ گناہ میں تبدیل کر دیتا ہے، تو اس طرح یہ صغیرہ گناہ بھی “لمم” سے خارج ہو جائیں گے۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں کہتے ہیں:
“علمائے کرام کے مطابق صغیرہ گناہوں پر اصرار کرنے سے صغیرہ بھی کبیرہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، نیزسیدنا عمر، ابن عباس اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہے کہ: استغفار کرنے سے کوئی کبیرہ باقی نہیں رہتا، اور اسی طرح اصرار کرنے سے کوئی صغیرہ ؛ صغیرہ نہیں رہتا۔
یعنی مطلب یہ ہے کہ: کبیرہ گناہ کو استغفار مٹا دیتا ہے، اور بار بار صغیرہ گناہ کرنے سے صغیرہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے۔” ختم شد
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ “مجموع الفتاوى” (15/293) میں کہتے ہیں:
“زنا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، جبکہ آنکھوں کا غلط استعمال، اور جسم کو چھونا وغیرہ ان میں سے لمم بخش دئیے جائیں گے بشرطیکہ انسان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے، چنانچہ اگر کوئی شخص بار بار آنکھوں کا غلط استعمال کرے یا بار بار جسم کو چھوئے تو یہ بھی کبیرہ بن جائیں گے، ایسا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ غلطیوں کا بار بار اعادہ کسی دوسری بے حیائی سے زیادہ بڑا گناہ بن جائے، چنانچہ شہوت کے ساتھ تسلسل سے دیکھنا، اور پھر دیکھنے کے ساتھ عشقیہ باتیں کرنا، اکٹھے وقت گزارنا، اور جسم کو جسم کے ساتھ چھونا وغیرہ ممکن ہے کہ ایک بار کے زنا سے بھی زیادہ خطرناک ہو؛ یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام عادل گواہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ: وہ شخص عادل گواہ ہے جو کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو اور صغیرہ گناہ تسلسل کے ساتھ نہ کرے۔۔۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ محض آنکھوں سے دیکھنا اور جسم کو چھونا بھی مرد کو شرک تک لے جائے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّه ِ ترجمہ: اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو اللہ کا شریک بناتے ہیں اور ان سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسے اللہ تعالی کے ساتھ محبت کی جانی چاہیے۔ [البقرۃ: 165] ۔۔۔ تو دیوانہ عاشق اپنے معشوق کا فرمانبردار غلام بن کر رہتا ہے، اور ایسے دیوانے کا دل ہمیشہ اسی کا اسیر ہوتا ہے۔ ” مختصراً ختم شد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں صغیرہ گناہوں کو معمولی سمجھنے سے متنبہ فرمایا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو معمولی گناہوں سے بچاؤ، صغیرہ گناہوں کا ارتکاب ایسے ہی ہے کہ کچھ لوگ کسی وادی میں پڑاؤ کریں اور ہر ایک شخص ایک ایک لکڑی لے کر آئے تو وہ اپنے لیے روٹی پکا لیتے ہیں ، تو چھوٹے چھوٹے گناہوں پر بھی جب گناہگار کا مواخذہ کیا جائے گا تو اسے ہلاک کر کے رکھ دیں گے۔) مسند احمد: (22302) نے اسے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر کے مطابق اس کی سند حسن ہے۔
اسی طرح مسند احمد : (3803) میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو معمولی گناہوں سے بھی بچاؤ؛ کیونکہ یہ معمولی گناہ اکٹھے ہو کر آدمی کو ہلاک کر دیتے ہیں، یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان گناہوں کے لیے مثال بھی ذکر فرمائی کہ: ایک قوم کسی کھلی جگہ میں پڑاؤ کے لیے اتری اور پھر ان کے کھانے کا وقت ہو گیا، تو ایک آدمی ایک لکڑی لے آیا، دوسرا آدمی دوسری لکڑی لے آیا حتی کہ انہوں نے بہت سی لکڑیاں جمع کر لیں، اور خوب آگ بھڑکائی، اس طرح وہ آگ پر رکھے ہوئے کھانے کو پکانے میں کامیاب ہو گئے۔) اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح الجامع: (2687) میں حسن قرار دیا ہے۔
اسی طرح سنن ابن ماجہ: (4243) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عا ئشہ معمولی سمجھے جا نے والے گنا ہو ں سے بچنا، اللہ کے ہا ں ان کا بھی مؤا خذہ ہو گا۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
دل کو سیاہ کرنے کے لیے صغیرہ گناہوں پر اصرار مؤثر ترین ذریعہ ہے، یہ بالکل پتھر پر پانی کا قطرہ گرنے کی طرح اثر رکھتا ہے کہ یہ قطرے بھی پتھر میں گڑھا بنا دیتے ہیں حالانکہ پانی نہایت نرم جبکہ پتھر نہایت سخت ہوتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
{ لَا تَحْقِرَنَّ صَغِيْرَةً إِنَّ الْجِبَالَ مِنَ الْحَصَى}
کسی صغیرہ گناہ کو بھی معمولی مت سمجھیں یقیناً پہاڑ بھی کنکریوں سے بنے ہوتے ہیں۔
دوم:
جب انسان اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہو جائے تو اس کا گناہ معاف کر دیا جاتا ہے اور اسے اس گناہ کی سزا دنیا یا آخرت کہیں بھی نہیں دی جاتی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔) ابن ماجہ: (4250) حافظ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کی سند حسن ہے۔ البانی ؒ نے اس کو صحیح ابن ماجہ میں حسن قرار دیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ جب تک انسان غرغرے کی کیفیت میں نہ پہنچے تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، جیسے کہ حدیث میں بھی یہ چیز وارد ہے۔ توبہ کے تین ارکان ہیں: گناہ چھوڑ دے، گناہ کرنے پر پشیمان ہو، اور آئندہ کبھی بھی یہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے اور پھر دوبارہ اس سے گناہ سر زد ہو جائے تو اس طرح اس کی سابقہ توبہ کالعدم نہیں ہو گی، اور اگر کوئی شخص کسی ایک گناہ سے توبہ کرے، لیکن کسی دوسرے گناہ میں وہ ملوث ہو تو تب بھی اس کی توبہ ٹھیک ہے۔ اہل حق کا یہی موقف ہے۔” مختصراً ختم شد
آپ رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ:
“اگر گناہ سینکڑوں یا ہزاروں بار ہو جائے، اور انسان ہر بار توبہ کرتا چلا جائے تو اس کی توبہ قبول ہو گی اور گناہ معاف ہوتا چلا جائے گا، نیز اگر سارے گناہوں کے بعد ایک ہی بار سب گناہوں سے توبہ کرے تو بھی اس کی توبہ صحیح ہو گی۔” ختم شد
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (جب کوئی انسان گناہ کرے اور کہے: یا رب! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے لہذا تو مجھے معاف فرما دے۔ تو اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: میرے بندے کو علم ہے کہ اس کا ایک ہی رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی فرماتا ہے۔ پھر دوبارہ اس سے گناہ سر زد ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے: یا رب! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے لہذا تو مجھے معاف فرما دے۔ تو اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: میرے بندے کو علم ہے کہ اس کا ایک ہی رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی فرماتا ہے۔ اس سے پھر گناہ سر زد ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے: یا رب! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے لہذا تو مجھے معاف فرما دے۔ تو اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: میرے بندے کو علم ہے کہ اس کا ایک ہی رب ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی فرماتا ہے۔ اب تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔) ایک روایت میں یوں الفاظ ہیں: (میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا اب میرا بندہ جو بھی چاہے عمل کرے۔)
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
بار بار گناہ کا ارتکاب کرنے والے شخص کے لیے اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ: اِعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ اب تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم گناہ کر کے توبہ کرتے رہو گے ؛ میں بھی تمہیں بخشتا رہوں گا۔ ختم شد
بہ ہر حال: اللہ تعالی کی رحمت بہت وسیع ہے، اور اس کا فضل بہت عظیم ہے۔ توبہ کرنے والا کوئی بھی ہو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، لیکن کسی مسلمان کو توبہ کی امید پر گناہ کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اسے توبہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اور حدیث میں مذکور بات اللہ تعالی کی رحمت کی وسعت بیان کرنے کے لیے ہے کہ اللہ تعالی کا فضل عظیم ہے، اس لیے نہیں کہ لوگ گناہوں کے ارتکاب کی اتنی جرأت کریں کہ توبہ کی امید پر گناہ کرنے لگ جائیں۔
واللہ اعلم