الحمد للہ.
واجب تو يہى ہے كہ اسے ترك كرنا اور اسے ترك كرنے كى نصيحت كرنى چاہيے؛ كيونكہ اس ميں قرآنى آيات كى توہين ہے، اور اس ليے بھى كہ بعض لوگ يہ گمان كرتے ہيں كہ ميت كو اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، جو كہ ايك برائى اور خطا ہے جس كى شريعت مطہرہ ميں كوئى گنجائش نہيں.
اور اسى طرح جب اس پر لا الہ الا اللہ لكھا ہو تو يہ بھى غير مشروع ہے؛ بلكہ مشروع تو يہ ہے كہ قريب المرگ شخص كو موت سے قبل لا الہ الا اللہ كى تلقين كى جائے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم اپنے مردوں كو لا الہ الا اللہ كى تلقين كرو"
اسے مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور مردوں سے يہاں قريب المرگ لوگ مراد ہيں تا كہ ان كى آخرى كلام لا الہ الا اللہ ہو.
اور رہا مسئلہ اس كے كفن يا قبر پر لكھنے كا تو يہ بالكل جائز نہيں ہے. اھـ
الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى.